الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
17. باب مَا جَاءَ فِي الْغُسْلِ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ
17. باب: میت کو غسل دینے سے غسل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 993
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مِنْ غُسْلِهِ الْغُسْلُ، وَمِنْ حَمْلِهِ الْوُضُوءُ يَعْنِي الْمَيِّتَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُغَسِّلُ الْمَيِّتَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا غَسَّلَ مَيِّتًا فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْوُضُوءُ. وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: أَسْتَحِبُّ الْغُسْلَ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ وَلَا أَرَى ذَلِكَ وَاجِبًا، وَهَكَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ: وقَالَ أَحْمَدُ: مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا أَرْجُو أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْهِ الْغُسْلُ، وَأَمَّا الْوُضُوءُ فَأَقَلُّ مَا قِيلَ فِيهِ، وقَالَ إِسْحَاق: لَا بُدَّ مِنَ الْوُضُوءِ، قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: لَا يَغْتَسِلُ وَلَا يَتَوَضَّأُ مَنْ غَسَّلَ الْمَيِّتَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کو نہلانے سے غسل اور اسے اٹھانے سے وضو ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے یہ موقوفاً بھی مروی ہے،
۳- اس باب میں علی اور عائشہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو میت کو غسل دے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جب کوئی کسی میت کو غسل دے تو اس پر غسل ہے،
۵- بعض کہتے ہیں: اس پر وضو ہے۔ مالک بن انس کہتے ہیں: میت کو غسل دینے سے غسل کرنا میرے نزدیک مستحب ہے، میں اسے واجب نہیں سمجھتا ۱؎ اسی طرح شافعی کا بھی قول ہے،
۶- احمد کہتے ہیں: جس نے میت کو غسل دیا تو مجھے امید ہے کہ اس پر غسل واجب نہیں ہو گا۔ رہی وضو کی بات تو یہ سب سے کم ہے جو اس سلسلے میں کہا گیا ہے،
۷-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: وضو ضروری ہے ۲؎، عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جس نے میت کو غسل دیا، وہ نہ غسل کرے گا نہ وضو۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 993]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 8 (1463) (تحفة الأشراف: 1726) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جمہور نے باب کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے کیونکہ ابن عباس کی ایک روایت میں ہے «ليس عليكم في غسل ميتكم غسل إذا اغسلتموه إن ميتكم يموت طاهرا وليس بنجس، فحسبكم أن تغسلوا أيديكم» جب تم اپنے کسی مردے کو غسل دو تو تم پر غسل واجب نہیں ہے، اس لیے کہ بلاشبہ تمہارا فوت شدہ آدمی (یعنی عورتوں، مردوں، بچوں میں سے ہر ایک) پاک ہی مرتا ہے، وہ ناپاک نہیں ہوتا تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ دھو لیا کرو لہٰذا اس میں اور باب کی حدیث میں تطبیق اس طرح دی جائے کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا جائے، یا یہ کہا جائے کہ غسل سے مراد ہاتھوں کا دھونا ہے، اور صحیح قول ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد نہانا مستحب ہے۔
۲؎: انہوں نے باب کی حدیث کو غسل کے وجوب پر محمول کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1463)

   جامع الترمذيمن غسله الغسل من حمله الوضوء يعني الميت
   سنن أبي داودمن غسل الميت فليغتسل من حمله فليتوضأ
   سنن ابن ماجهمن غسل ميتا فليغتسل
   بلوغ المرام‏‏‏‏من غسل ميتا فليغتسل،‏‏‏‏ ومن حمله فليتوضا

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 993 کے فوائد و مسائل
  الشيخ ابن الحسن محمدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 993  
فقہ الحدیث
شرعی دلائل کی رو سے میت کو غسل دینے والے شخص پر غسل واجب نہیں بلکہ مندوب و مستحب ہے۔ اسی طرح میت کی چارپائی اٹھانے والے شخص پر بھی وضو واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ فہم سلف اسی بات کا مؤید ہے۔ جیسا کہ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388 ھ) فرماتے ہیں:
«لا اعلم أحدا من الفقهاء يوجب الاغتسال من غسل الميت، ولا الوضوء من حمله، ويشبه أن يكون الأمر فى ذلك على الاستحباب.»
میں فقہائے کرام میں سے کسی ایک بھی ایسے فقیہ سے واقف نہیں جو میت کو غسل دینے والے شخص پر غسل کو اور اسے کندھا دینے والے شخص پر وضو کو واجب قرار دیتا ہو۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس بارے میں (احادیث میں وارد) حکم استحباب پر محمول ہے۔ [معالم السنن: 305/3]
↰ یعنی اس مسئلہ میں جتنی بھی احادیث وارد ہیں، ان کے بارے میں سلف، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کا فیصلہ ہے کہ وہ ساری کی ساری استحباب پرمحمول ہیں۔

آئیے یہ احادیث اور ان کے بارے میں فہم سلف ملاحظہ فرمائیں:
❶ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من غسل ميتا فليغتسل، ومن حمله فليتوضأ»
جو شخص میت کو غسل دے، وہ خود بھی غسل کرے اور جو میت کو کندھا دے، وہ وضو کرے۔ [سنن الترمذي: 993، وقال: حسن، سنن ابن ماجه: 1463، السنن الكبري للبيهقي: 301/10، و صححه ابن حبان: 1161، و سندهٔ حسن]
* اس کے راوی سہیل بن ابی صالح کے متعلق حافظ منذری رحمہ اللہ (656 ھ) لکھتے ہیں:
«وثقه الجمهور»
اسے جمہور محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے۔ [الترغيب والترهيب: 110/3]
* حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے «ثقه» قرار دیا ہے۔
* نیز فرماتے ہیں:
«وثقه ناس»
اسے بہت سے لوگوں نے ثقہ قرار دیا ہے۔ [الكاشف فى معرفة من له رواية فى الكتب الستة: 327/2]

❷ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من غسل ميتا فليغتسل، ومن حمله فليتوضأ»
جو شخص میت کو غسل دے، وہ خود بھی غسل کرے اور جو میت کو کندھا دے، وہ وضو کرے۔ [مصنف ابن أبى شيبة: 269/3، مسند الإمام أحمد: 433/2، 454، مسند الطيالسي: 305/2، الجعديات لأبي القاسم البغوي: 987,986/2، وسنده حسن]
٭ مسند طیالسی وغیرہ میں یہ الفاظ بھی ہیں:
«ومن حمل جنارة فليتوضا.»
جو شخص جنازے کو اٹھائے، وہ وضو کرے۔
* صالح مولی التوأمہ، یعنی صالح بن نبہان مدنی جمہورمحدثین کرام کے نزدیک ثقہ ہے۔ اس پر جرح اس وقت پر محمول ہے جب وہ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔
* امام علی بن مدینی [سؤالات محمد بن عثمان، ص: 87,86]، امام یحییٰ بن معین [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي: 56/4، و سندهٔ حسن]، حافظ جوزجانی [الشجرة فى أحوال الرجال، ص: 144] اور امام ابن عدی رحمها اللہ [الكامل: 58/4] کا کہنا ہے کہ ابن ابی ذئب نے صالح مولی التوأمہ سے اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (773-852) لکھتے ہیں:
«وقد اتفقوا على أن الثقة إذا تميز ما حدث به قبل اختلاطه مما بعده، قبل»
محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ثقہ (مختلط) راوی کی اختلاط سے پہلے بیان کی ہوئی روایات اس وقت قابل قبول ہو جاتی ہیں جب وہ بعد والی روایات سے ممتاز ہو جائیں۔ [نتائج الافكار: 268/2]
* حافظ موصوف مذکورہ حدیث کے بارے میں خلاصہ فرماتے ہیں:
«وفي الجملة هو بكثرة طرقه أسوأ حاله أن يكون حسنا.»
الحاصل یہ حدیث اپنی بہت سی سندوں کے ساتھ کم از کم حسن ہے۔ [التلخيص الحبير فى تخريج أحاديث الرافعي الكبير: 137/1، ح: 182]

❸ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
«من غسل ميتا فليغتسل، ومن حمله فليتوضا»
جو شخص میت کو غسل دے، وہ خود بھی غسل کرے اور جو میت کو کندھا دے، وہ وضو کرے۔ [مصنف ابن أبى شيبة: 269/3، السنن الكبري للبيهقي: 302/1، و سندهٔ حسن]
٭سنن کبریٰ بیہقی میں یہ الفاظ زائد ہیں:
«و من مشي معها فلا يجلس حتي يقضي دفنها»
اور جو جنازے کے ساتھ جائے وہ اس کی تدفین مکمل ہونے تک نہ بیٹھے۔

❹ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
«كنا نغسل الميت، فمنا من يغتسل، ومنا من لا يغتسل .»
ہم (صحابہ) میت کو غسل دیا کرتے تھے، بعض غسل کر لیتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے۔ [السنن الكبري للبيهقي: 306/1، و سندهٔ صحيح]
* حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس اثر کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [التلخيصل الحبير: 137/1]

❺ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی فرماتے ہیں:
«من غسل ميتا فأصابه منه شيء فليغتسل، والا فليتوضا»
اگر کسی شخص کو مردہ نہلاتے ہوئے اس سے کوئی گندگی لگ جائے تو وہ غسل کر لے، ورنہ وضو ہی کر لے۔ [السنن الكبري للبيهقي: 306/1 و سندهٔ حسن]

❻ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
«من غسل ميتا فليغتسل»
جو شخص میت کو غسل دے، وہ خود بھی غسل کر لے۔ [ايضا: 305/1، وسندہ صحيح]
٭ آپ رضی اللہ عنہما کا دوسرا قول بھی ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں:
«ليس عليكم فى غسل ميتكم غسل إذا غسلتموه، إن ميتكم لمؤمن طاهر، وليس بنجس، فحسبكم أن تغسلوا أيديكم»
جب تم اپنے مردوں کو غسل دیتے ہو تو اس سے تمہارے لیے غسل فرض نہیں ہوتا کیونکہ تمہارا مردہ مؤمن اور طاہر ہوتا ہے، نجس نہیں۔ لہٰذا تمہارے لیے اپنے ہاتھ دھو لینا ہی کافی ہے۔ [ايضا، 306/1، وسندۂ حسن]
٭ نیز فرماتے ہیں:
«لا تنجسوا ميتكم، يعني ليسى عليه غسل»
اپنے مردوں کو پلید نہ سمجھو، یعنی مردے کو نہلانے والے پر غسل (فرض) نہیں۔ [مصنف ابن أبى شيبة: 267/3، وسنده صحيح]
٭ نیز جب آپ سے پوچھا گیا کہ:
«هل علي من غسل ميتا غسل؟» کیا مردے کو غسل دینے والے پر غسل فرض ہے؟
اس پر آپ نے فرمایا:
«أنجستم صاحبكم؟ يكفي فيه الوضوء»
کیا تم اپنے مردے کو پلید سمجھتے ہو؟ مردے کو نہلانے والے کے لیے وضو کر لینا ہی کافی ہے۔ [السنن الكبري للبيهقي: 305/1 و سندهٔ صحيح]

❼ نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:
«كنا نغسل الميت، فيتوضا بعضنا ويغتسل بعض، ثم يعود، فنكفنه، ثم نحنطه، ونصلي عليه، ولا نعيد الوضوء.» ہم میت کو غسل دیتے، پھر ہم میں سے کچھ لوگ وضو کرتے تھے اور کچھ غسل کر لیتے تھے۔ پھر وہ لوٹتے تو ہم میت کو کفن دیتے، اسے خوشبو لگاتے اور اس کا جنازہ پڑھتے، ہم دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے۔ [السنن الكبرى للبيهقي: 307,306/1، وسنده صحيح]

❽ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب مؤمن مردوں کو غسل دینے والے شخص پر غسل (فرض) ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ایسا نہیں ہے۔ [مصنف ابن أبى شيبة: 268/3، وسنده صحيح]

❾ عائشہ بنت سعد بیان کرتی ہیں:
«اوذن سعد بجنازة سعيد بن زيد وهو بالبقيع، فجاء وغسله، وكفنه، وحنطه، ثم أتى داره، فصلى عليه، ثم دعا بماء، فاغتسل، ثم قال: إني لم أغتسل من غسله، ولو كان نجسا ما غسلته، ولكني اغتسلت من الحر»
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے جنازے کی اطلاع ملی تو وہ اس وقت بقیع میں تھے۔ آپ تشریف لائے، سعید رضی اللہ عنہ کو غسل دیا، ان کو کفن دیا، خوشبو لگائی، پھر گھر گئے، ان کا جنازہ ادا کیا، پھر پانی منگوا کر غسل کیا اور فرمایا: میں نے سعید رضی اللہ عنہ کو غسل دینے کی وجہ سے غسل نہیں کیا۔ اگر وہ نجس ہوتے تو میں انہیں غسل ہی نہ دیتا۔ میں نے تو گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے۔ [ايضا، وسندۂ صحيح]

❿ خزاعی بن زیاد کہتے ہیں:
«اؤصي عبد الله بن مغفل أن لا يحضره ابن زياد، وان يليني أصحابي، فارسلوا إلى عائذ بن عمرو وابي برزة، وأناس من أصحابه، فما زادوا على أن كفوا أكمامهم، وجعلوا ما فضل عن قمصهم فى حجزهم، فلما فرغوا لم يزيدوا على الوضوء»
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے یہ وصیت کی تھی کہ ابن زیاد ان کے پاس نہ آئے، نیز ان کے ساتھ ان کے قریب آئیں۔ سیدنا عائذ بن عمرو، سیدنا برزہ اور سیدنا ابن مغفل رضی اللہ عنہ کے دیگر ساتھیوں کی طرف پیغام بھیجا گیا۔ انہوں نے آ کرصرف یہ کیا کہ اپنی کفیں اوپر چڑھائیں اور ان کے قمیصوں کا جو کپڑا لٹک رہا تھا، اسے اپنے کمربندوں میں ڈال لیا، پھر (غسل دینے سے) فراغت کے بعد صرف وضو کر لیا۔ [ايضا، وسندۂ صحيح]

⓫ ابوقلابہ تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے:
«انه كان إذا غسل ميتا، اغتسل»
جب وہ میت کو غسل دیتے تو خود بھی غسل کرتے۔ [ايضا: 269/3، وسندۂ صحيح]

⓬ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«كانوا يقولون: إن كان صاحبكم نجسا، فاغتسالوا منهٔ .»
لوگ (صحابہ کرام) کہا کرتے تھے کہ اگر تمہارا مردہ نجس ہے تو پھر اسے غسل دینے کی وجہ سے غسل کر لو۔ [ايضا، وسندۂ صحيح]

⓭ یونس بن عبید کہتے ہیں:
«كان الحسن لايري على الذى يغسل الميت غسلا»
امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ میت کو غسل دینے والے پر غسل کو (فرض) خیال نہیں کرتے تھے۔ [المطالب العالية لابن حجر: 481، وسندۂ صحيح]

⓮ امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی:
«إن من السنة أن يغتسل من غسل ميتا ويتوضا من نزل فى حفرته حين يدفن، ولا وضوء على أحد من غير ذلك ممن صلى عليه، ولا ممن حمل جنازتهٔ، ولا ممن مشي معها.»
میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کرنا اور دفن کے وقت قبر میں اترنے والے کے لیے وضو کرنا مسنون ہے۔ ان کے علاوہ جنازہ پڑھنے والے، کندھا دینے والے اور جنازے کے ساتھ چلنے والے، کسی پر وضو نہیں۔ [السنن الكبري للبيهقي:303/1، وسندهٔ صحيح]

⓯ امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ (209-279ھ) فرماتے ہیں:
«وقد اختلف أهل العلم فى الذى يغسل الميت، فقال بعض أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم: إذا غسل ميتا فعليه الغسل، وقال بعضهم: عليه الوضوء، وقال مالك بن أنس: أستجب الغسل من غسل الميت، ولا أرى ذلك واجبا، وهكذا قال الشافعي، وقال أحمد: من غسل ميتا أرجو أن لا يجب عليه الغسل، وأما الوضوء فأقل ما قيل فيه، وقال إسحاق: لا بد من الوضوء، وقد روي عن عبد الله بن المبارك أنه قال: لا يغتسل ولا يتوضا من غسل الميت .»
مردے کو نہلانے والے (پر غسل) کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہ پر مشتمل بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب کوئی میت کو غسل دے تو اس پر بھی غسل ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس پر وضو ہے۔ امام مالک بن انس فرماتے ہیں کہ میں مردے کو نہلانے والے کے لیے غسل کو مستحب سمجھتا ہوں، واجب نہیں۔ امام شافعی بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ میرے خیال میں میت کو غسل دینے والے پر غسل فرض نہیں، البتہ اسے کم از کم وضو کا کہا گیا ہے۔ امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں: اس کے لیے وضو ضروری ہے، جبکہ امام عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ اسے نہ غسل کرنے کی ضرورت ہے نہ وضو کرنے کی۔ [سنن الترمذي، تحت الحديث: 993]

   اس حدیث کے بارے میں اصولی تنبیہات   
① بعض محدثین کرام نے اس حدیث کی سند پر اعتراض کیا ہے، جیسا کہ:
٭ امام محمد بن یحییٰ ذہلی رحمہ اللہ (م: 258 ھ) فرماتے ہیں:
«لا أعلم فيمن غسل ميتا فليغتسل، حديثا ثابتا، ولو ثبت لزمنا استعماله»
میرے علم میں مردے کو غسل دینے والے پر غسل کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ اگر یہ حدیث ثابت ہو جائے تو ہمارے لیے اس پر عمل لازم ہو جائے گا۔ [السنن الكبري للبيهقي:302/1، وسندۂ صحيح]
٭ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس يثبت فيه حديث .»
اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ [مسائل الإمام أحمد برواية أبى داؤد، ص:309]

٭ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل اور امام علی بن مدینی رحمها اللہ سے نقل کیا ہے کہ:
«لا يصح من هذا الباب شيء .»
اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔ [العلل الكبير للترمذي: 402/1]

٭ امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وليس فيه خبر ثابت .»
اس بارے میں کوئی ثابت حدیث موجود نہیں۔ [الاوسط:351/5]

٭ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الروايات المرفوعة فى هذا الباب عن أبى هريرة غير قوية، لجهالة بعض رواتها وضعف بعضهم.»
اس بارے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع روایات قوی نہیں، کیونکہ ان کے بعض راوی مجہول ہیں اور بعض ضعیف۔ [السنن الكبري:303/1]

② امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کو منسوخ قرار دیا ہے لیکن اس کا کوئی ناسخ ذکر نہیں کیا۔

* صحیح بات یہ ہے کہ اس مسئلے میں دو مرفوع احادیث ثابت ہیں، ان کی سند صحیح ہے۔ بہت سے آثار صحابہ بھی موجود ہیں۔ ان تمام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ میت کو غسل دینے والے پر غسل فرض نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اسی طرح میت کی چارپائی کو کندھا دینے والے شخص کے لیے وضو واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ جن آثارمیں غسل اور وضو کی نفی کی گئی ہے، ان سے مراد فرضیت اور وجوب کی نفی ہے، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آثار سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے۔

٭ آخرمیں حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کا یہ قول ملاحظہ فرما لیں:
«بل يعمل بهما، فيستحب الغسل»
بلکہ ان دونوں احادیث پر عمل ہو گا اور غسل کرنا مستحب ٹھہرے گا۔ [مختصر استدراك الذهبي: 309/1، ح: 93]
معلوم ہوا کہ میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کرنا اور میت کو کندھا دینے والے کے لیے وضو کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 41، حدیث/صفحہ نمبر: 10   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 993  
اردو حاشہ:
1؎:
جمہور نے باب کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے کیونکہ ابن عباس کی ایک روایت میں ہے «لَيْسَ عَلَيْكُمْ فِيْ غُسْلِ مَيِّتِكُمْ إِذَاغَسَلْتُمُوْهُ إِنَّ مَيِّتِكُمْ يَمُوْتُ طَاهِرًا وَلَيْسَ بِنَجْسٍ فَحَسْبُكُمْ أنْ تَغْسِلُوْا أَيْدِيْكُمْ»  جب تم اپنے کسی مردے کو غسل دو تو تم پر غسل واجب نہیں ہے،
اس لیے کہ بلاشبہ تمہارا فوت شدہ آدمی (یعنی عورتوں،
مردوں،
بچوں میں سے ہر ایک)
پاک ہی مرتا ہے،
وہ ناپاک نہیں ہوتا تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ دھو لیا کرو لہذا اس میں اور باب کی حدیث میں تطبیق اس طرح دی جائے کہ ابو ہریرہ کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا جائے،
یا یہ کہا جائے کہ غسل سے مراد ہاتھوں کا دھونا ہے،
اور صحیح قول ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد نہانا مستحب ہے۔

2؎:
انہوں نے باب کی حدیث کو غسل کے وجوب پر محمول کیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 993   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 71  
´میت کو نہلانے والے کے لیے خود غسل کرنا ضروری نہیں`
«. . . وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏من غسل ميتا فليغتسل،‏‏‏‏ ومن حمله فليتوضا . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میت کو غسل دیا وہ خود بھی غسل کرے اور جس نے میت کو اٹھایا وہ وضو کرے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 71]
لغوی تشریح:
«قَالَ أَحْمَدُ» سے مراد امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں۔
«لَا يُصِحُّ شَيْءٌ فِي هٰذَا الْبَابِ» (بلوغ المرام کے) اس باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ یہ حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کی بنا پر منسوخ ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کو غسل دینے کی وجہ سے تم پر غسل نہیں ہے، صرف ہاتھوں کو دھو لینا ہی کافی ہے۔ [المستدرك للحاكم: 386/1، والسنن الكبريٰ للبيهقي: 164/1]

فائدہ:
صحیح یہ ہے کہ «مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا فَلْيَغْتَسِلُ» میں حکم استحباب کے لیے ہے، یعنی میت کو نہلانے والے کے لیے خود غسل کرنا ضروری نہیں۔ اس کی دلیل سنن دارقطنی میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ بیان ہے کہ ہم میت کو غسل دیا کرتے تھے، پھر بعد میں بعض لوگ غسل کر لیتے اور بعض نہیں کرتے تھے۔ [سنن الدار قطني: 71/2، 72، حديث: 1796]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ بیہقی اور حاکم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بھی اس کی مؤید ہے۔ حضرت ابن عباس، ابن عمر، عائشہ رضی اللہ عنہم، حسن بصری، ابراہیم نخعی، امام شافعی، اسحاق رحمہم اللہ اور اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، البتہ بعض وجوب کے بھی قائل ہیں۔ مگر جنازہ اٹھانے والے پر وضو کے وجوب کا کوئی بھی قائل نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 71   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3161  
´میت کو نہلانے والے کے لیے غسل کرنے کا مسئلہ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میت کو نہلائے اسے چاہیئے کہ خود بھی نہائے، جو جنازہ کو اٹھائے اسے چاہیئے کہ وضو کر لے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3161]
فوائد ومسائل:
یہ عمل مستحب محض ہے۔
واجب نہیں جیسے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات سے ثابت ہوتا ہے تفصیل کےلئے دیکھئے۔
(أحکام الجنائز وبدعھا للأباني، مسئلة:31)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3161   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1463  
´میت کو غسل دینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی مردے کو غسل دے وہ خود بھی غسل کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1463]
اردو حاشہ:
فائده:
یہ حکم استحبابی ہے۔
وجوبی نہیں۔
یعنی غسل دینے کے بعد غسل کرنا افضل ہے۔
واجب نہیں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔
ہم میت کو غسل دیا کرتے تھے۔
تو کوئی غسل کر لیتا تھا۔
اور کوئی نہیں کرتا تھا۔
دیکھئے: (سنن الدارقطني، حدیث: 1796، 222/2)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1463   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابوداود3161  
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میت کو نہلائے اسے چاہیئے کہ خود بھی نہائے، جو جنازہ کو اٹھائے اسے چاہیئے کہ وضو کر لے۔ [ابوداود 3161]
محدثین کرام اور ضعیف جمع ضعیف کی مروّجہ حسن لغیرہ کا مسئلہ؟
جلیل القدر محدثین کرام نے ایسی کئی احادیث کو ضعیف وغیر ثابت قرار دیا، جن کی بہت سی سندیں ہیں اور ضعیف جمع ضعیف کے اُصول سے بعض علماء انھیں حسن لغیرہ بھی قرار دیتے ہیں، بلکہ بعض ان میں سے ایسی روایات بھی ہیں جو ہماری تحقیق میں حسن لذاتہ ہیں۔
اس مضمون میں ایسی دس روایات پیش خدمت ہیں جن پر اکابر علمائے محدثین نے جرح کی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ضعیف جمع ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ کو حجت نہیں سمجھتے تھے:
— نمبر 3 —
حدیث: جو شخص کسی میّت کو نہلائے تو وہ غسل کرے۔
اس حدیث کی چند سندیں درج ذیل ہیں:
1: القاسم بن عباس عن عمروبن عمیر عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (ابوداود:3161، بیہقی 1/ 303)
2: إسحاق مولی زائدۃ عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (ابو داود:3162)
وسقط ذکرہ من روایۃ الترمذي (993) وقال: حدیث حسن
3: الحارث بن مخلد عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (بیہقی 1/ 301 والسند إلی الحارث حسن)
4: عن صالح مولی التوأمۃ عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (بیہقی 1/ 302، احمد 2/ 433 ح 9601)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی سندیں ہیں۔
لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
لایصح الحدیث فیہ ولکن یتوضأ
اور اس میں حدیث صحیح نہیں، لیکن وہ وضو کرے۔
(مسائل الامام احمد روایۃ صالح بن احمد 1/ 460 فقرہ: 574)
اور فرمایا:
لیس فیہ حدیث یثبت
اور اس میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔
(مسائل الامام احمد روایۃ عبداللہ بن احمد 1/ 79 فقرہ: 87، نیز دیکھئے ص 82 فقرہ: 92)
بطورِ تائید عرض ہے کہ امام بخاری نے امام احمد بن حنبل اور امام علی بن عبد اللہ المدینی سے نقل کیا:
لایصح في ھذا الباب شئ
اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی بحوالہ ابو عیسی الترمذی 1/ 301۔302، العلل الکبیرللترمذی 1/ 402 باب 147)
امام محمد بن یحییٰ الذھلی نے فرمایا:
مجھے غسلِ میت سے غسل والی کو ئی ثابت شدہ حدیث معلوم نہیں اور اگر ثابت ہوتی تو ہم پر ضروری تھا کہ اس پر عمل کرتے۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی 1/ 302 و سندہ صحیح)
ابن الجوزی نے کہا:
ھذہ الأحادیث کلھا لایصح
یہ ساری حدیثیں صحیح نہیں ہیں۔
(العلل المتناھیہ ج 1 ص 378 بعد ح 630)
علامہ نووی نے امام ترمذی کا رَد کرتے ہوئے کہا:
بل ھو ضعیف
بلکہ وہ (روایت) ضعیف ہے۔
(المجموع شرح ا لمھذب 5/ 185)
امام ابوبکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری نے فرمایا:
ولیس فیہ خبر یثبت
اور اس (مسئلے) میں کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔
(الاوسط 1/ 351 تحت ت 2968)
بہت سے علماء نے اس حدیث کو حسن یا صحیح قرار دیا اور راقم الحروف کے نزدیک ابوداود (3162) اور بیہقی (1/ 301) وغیرہما کی حدیث حسن ہے، لیکن امام احمد بن حنبل، امام محمد بن یحییٰ الذھلی، امام ابن المنذر، حافظ ابن الجوزی اورعلامہ نووی وغیرہم کا اس حدیث پر جرح کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ضعیف ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔
امام بیہقی نے فرمایا:
اس باب میں ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مرفوع روایات قوی نہیں ہیں، بعض راویوں کے مجہول ہو نے اور بعض راویوں کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اور صحیح یہ ہے کہ یہ ابوہریرہ کی موقوف روایت ہے، مرفوع نہیں۔
(السنن الکبریٰ 1/ 303)
معلوم ہوا کہ امام بیہقی بھی متساہل ہونے کے باوجود ضعیف جمع ضعیف = مروّجہ حسن لغیرہ کے حجت ہونے کے علی الاطلاق قائل نہیں تھے۔
تنبیہ: دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ روایت ِمذکورہ کا حکم وجوبی نہیں بلکہ استحبابی ہے۔ (دیکھئے نیل المقصود: 3162)
بلکہ بعض علماء نے اسے منسوخ قرار دیاہے۔ واللہ اعلم
   تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 72