عدی رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چرواہوں کو رخصت دی کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑ دیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اسی طرح ابن عیینہ نے بھی روایت کی ہے، اور مالک بن انس نے بسند «عبد الله بن أبي بكر بن محمد ابن عمرو بن حزم عن أبيه عن أبي البداح بن عدي عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، اور مالک کی روایت زیادہ صحیح ہے، ۲- اہل علم کی ایک جماعت نے چرواہوں کو رخصت دی ہے کہ وہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن ترک کر دیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 954]
وضاحت: ۱؎: یعنی چرواہوں کے لیے جائز ہے کہ وہ ایام تشریق کے پہلے دن گیارہویں کی رمی کریں پھر وہ اپنے اونٹوں کو چرانے چلے جائیں پھر تیسرے دن یعنی تیرہویں کو دوسرے اور تیسرے یعنی بارہویں اور تیرہویں دونوں دنوں کی رمی کریں، اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ وہ یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کریں پھر اس کے بعد والے دن گیارہویں اور بارہویں دونوں دنوں کی رمی کریں اور پھر روانگی کے دن تیرہویں کی رمی کریں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 954
اردو حاشہ: 1؎: یعنی چرواہوں کے لیے جائزہے کہ وہ ایّام تشریق کے پہلے دن گیارہویں کی رمی کریں پھروہ اپنے اونٹوں کو چرانے چلے جائیں پھرتیسرے دن یعنی تیرہویں کو دوسرے اورتیسرے یعنی بارہویں اورتیرہویں دونوں دنوں کی رمی کریں، اس کی دوسری تفسیریہ ہے کہ وہ یوم النحرکوجمرئہ عقبہ کی رمی کریں پھراس کے بعدوالے دن گیارہویں اوربارہویں دونوں دنوں کی رمی کریں اورپھرروانگی کے دن تیرہویں کی رمی کریں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 954
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1976
´رمی جمرات کا بیان۔` عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چرواہوں کو رخصت دی کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن ناغہ کریں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1976]
1976. اردو حاشیہ: ابو البداح کےوالد کانام عاصم اور دادا کا نام عدی ہے۔ اس سند میں اس کو دادا کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1976
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 636
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے چرواہوں کو منی سے باہر رات گزارنے کی اجازت دے دی کہ قربانی کے دن کنکریاں ماریں پھر دوسرے اور تیسرے دو روز بھی کنکریاں ماریں پھر کوچ کے سنگریزے ماریں۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 636]
636لغوی تشریح: «ارحص» اور ایک نسخے میں «رحص» ہے۔ دونوں کے معنی ایک ہیں، یعنی رخصت و اجازت دے دی۔ «رعاة»”را“ پر ضمہ کے ساتھ، «راع» کی جمع ہے۔ چرواہے۔ «في البيتوتة» «البيتوتة» بات کا مصدر ہے۔ رات گزارنا۔ رات گزارنے سے مراد منیٰ میں راتوں کو گزارنا ہے۔ جس کی تفصیل گزشتہ حدیث کی شرح میں گزر چکی ہے۔ «عن مني» «عن» یہاں بعد اور دوری کے لیے ہے اور «غائبين» محذوف کے متعلق ہو گا، یعنی منیٰ سے باہر، اس سے دور رہتے ہوئے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے اونٹوں کی دیکھ بھال کے لیے منیٰ سے دوران کی حفاظت و حراست کے لیے منیٰ میں رات نہ گزارنے کی اجازت دے دی۔ «ثم يرمون الغد و من بعد الغد ليومين» وہ یوم نحر سے اگلے دن، یعنی گیارہ اور بارہ کی کنکریاں بارہ ذوالحجہ کو مارتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ دو دن کی رمی کو جمع کرتے تھے۔ «ثم ير مون يوم النفر» «نفر» سے مراد منیٰ سے واپسی کا دن، یعنی تیرہویں تاریخ ہے جسے یوم النفر الثانی بھی کہتے ہیں۔
فائدہ: یہ حدیث دلیل ہے کہ حاجیوں کے لیے منیٰ میں رات بسر کرنا واجب ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رخصت و اجازت واجب ہی کی صورت میں کسی کو دی جاتی ہے ورنہ اگر واجب نہ ہو تو اجازت کی ضرورت ہی نہیں۔
راوئ حدیث: حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ، ان کی کنیت ابوعبید اللہ یا ابوعمرو ہے۔ بنو عبید بن زید کے حلیف تھے۔ بنو عبید کا تعلق انصار کے قبیلے بنو عمرو بن عوف تھا۔ غزوہ بدر اور بعد کے غزوات میں حاضر رہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ بدر کے روز یہ قبائل عالیہ پر امیر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر فرمایا۔ 45 ہجری میں فوت ہوئے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ جنگ یمامہ کے روز شہیدہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 120 برس تھی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 636
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3070
´چرواہوں کی رمی کا بیان۔` ابوالبداح بن عاصم کے والد عاصم بن عدی بن جدا القضاعی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چرواہوں کو ایک دن چھوڑ کر ایک دن رمی کرنے کی رخصت دی ہے، (اس لیے کہ وہ اونٹوں کو ادھر ادھر چرانے لے جانے کی وجہ سے ہر روز منیٰ نہیں پہنچ سکتے تھے)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3070]
اردو حاشہ: چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دن کی رمی اگلے دن کریں، مثلاً: 10 تاریخ کو رمی کرنے کے بعد وہ چلے جائیں، پھر چاہیں تو گیارہ تاریخ کو دو دن کی رمی اکٹھی کر لیں۔ چاہیں تو 11 تاریخ کو نہ آئیں، 12 تاریخ کو دو دن کی رمی اکٹھی کر لیں۔ گویا ان کے لیے منیٰ میں رات گزارنا بھی ضروری نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3070
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3037
´عذر کی بناء پر کنکریاں مارنے میں دیر کرنے کا بیان۔` عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے چرواہوں کو رخصت دی کہ وہ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو رمی کر لیں، پھر یوم النحر کے بعد کے دو دنوں کی رمی ایک ساتھ جمع کر لیں، خواہ گیارہویں، بارہویں دونوں کی رمی بارہویں کو کریں، یا گیارہویں کو بارہویں کی بھی رمی کر لیں ۱؎۔ مالک بن انس کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا: پہلے دن رمی کریں پھر جس دن کوچ کرنے لگیں اس دن کر لیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3037]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ذوالحجہ کی گیارہ بارہ تیرہ تاریخ کو ایام تشریق کہتے ہیں۔ ان تین دنوں میں حاجی صرف جمرات میں رمی کرتے ہیں۔ اور جس نے دس تاریخ کو قربانی نہ کی ہو وہ ان دنوں میں قربانی کرسکتا ہے۔
(2) عذر کی وجہ سے دو دن کی رمی ایک دن کرنا جائز ہے۔ خواہ گیارہ تاریخ کو گیارہ اور بارہ کی رمی کرلی جائے پھر اس کے بعد تیرہ تاریخ کو رمی کی جائے خواہ بارہ تاریخ کو گیارہ اور بارہ کی رمی کرکے پھر اگلے دن رمی کر لی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3037
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:877
877- ابوبداح اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جانوروں کے) چروا ہوں کویہ اجازت دی تھی کہ وہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑ دیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:877]
فائدہ: ابوالبداح کے والد کا نام عاصم اور دادا کا نام عد ہے اس سند میں اس کو دادا کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 876