جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل ۱؎ کیا اور چار میں عام چل چلے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- شافعی کہتے ہیں: جب کوئی جان بوجھ کر رمل کرنا چھوڑ دے تو اس نے غلط کیا لیکن اس پر کوئی چیز واجب نہیں اور جب اس نے ابتدائی تین پھیروں میں رمل نہ کیا ہو تو باقی میں نہیں کرے گا، ۵- بعض اہل علم کہتے ہیں: اہل مکہ کے لیے رمل نہیں ہے اور نہ ہی اس پر جس نے مکہ سے احرام باندھا ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 857]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمل حجر اسود سے حجر اسود تک پورے مطاف میں مشروع ہے، رہی ابن عباس کی روایت جس میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلنے کا ذکر ہے تو وہ منسوخ ہے، اس لیے کہ ابن عباس کی روایت عمرہ قضاء کے موقع کی ہے جو ۷ھ میں فتح مکہ سے پہلے ہوا ہے اور جابر رضی الله عنہ کی حدیث حجۃ الوداع کے موقع کی ہے جو ۱۰ھ میں ہوا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 857
اردو حاشہ: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمل حجر اسود سے حجر اسود تک پورے مطاف میں مشروع ہے، رہی ابن عباس کی روایت جس میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلنے کا ذکر ہے تو وہ منسوخ ہے، اس لیے کہ ابن عباس کی روایت عمرہ قضا کے موقع کی ہے جو 7ھمیں فتح مکہ سے پہلے ہوا ہے اور جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حجۃ الوداع کے موقع کی ہے جو 10ھمیں ہوا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 857
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 300
´طواف کا آغاز حجر اسود سے کیا جائے گا` «. . . عن جابر بن عبد الله انه قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم رمل من الحجر الاسود حتى انتهى إليه ثلاثة اطواف . . .» ”. . . سیدنا جابر بن عبداللہ (الانصاری رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے رمل کیا (دوڑتے ہوئے چلے) حتیٰ کہ اس تک پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح تین چکر لگائے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 300]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1263/235 من حديث مالك به]
تفقه: ➊ اس پر اجماع ہے کہ حجراسود سے طواف شروع کیا جا تا ہے پھر وہاں سے دائیں طرف (مقام ابراہیم کی طرف) چلا جاتا ہے اور بیت الله بائیں طرف ہوتا ہے پہلے تین چکروں میں دوڑنا اور آخری چار چکروں میں چلنا مسنون ہے۔ ➋ حجراسود کو چومنا، ہاتھ لگانا دور سے بسم الله، اللہ کبر کہہ کر اشارہ کرنا مسنون ہے۔ ➌ الٹا طواف جائز نہیں ہے۔ ➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع میں طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کیا تھا یعنی ان چکروں میں دوڑنے کی طرح تیز تیز چلے تھے اور اس وقت مشرکین مکہ میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا لہٰذا رمل قیامت تک کے لئے سنت ہے۔ ➎ اس پراجماع ہے کہ عورتوں پر کوئی رمل نہیں بلکہ وہ طواف کے ساتوں پھیروں میں صرف چلیں گی۔ ➏ اگر کوئی شخص رمل نہ کرے تو اس پر دم واجب نہیں ہے اور اگر کثرت ازدحام کی وجہ سے رمل نہ کر سکے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ ➐ رمل حجر اسود سے حجر اسود تک ہے، رکن یمانی تک کا رمل کمزوروں کے لئے ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 142
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2942
´آنے والا طواف کہاں سے شروع کرے؟ اور حجر اسود کو بوسہ لے کر کدھر جائے؟` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے تو مسجد الحرام میں گئے، اور حجر اسود کا بوسہ لیا، پھر اس کے داہنے جانب (باب کعبہ کی طرف) چلے، پھر تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں معمول کی چال چلے، پھر مقام ابراہیم پر آئے اور آیت کریمہ: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» پڑھی پھر دو رکعت نماز پڑھی، اور مقام ابراہیم آپ کے اور کعبہ کے بیچ میں تھا۔ پھر دونوں رکعت پڑھ کر بیت اللہ کے پاس آ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2942]
اردو حاشہ: (1) بیت اللہ میں آتے ہوئے سب سے پہلے طواف کیا جاتا ہے اور طواف کی ابتدا حجر اسود سے ہوتی ہے۔ بوسہ یا ہاتھ لگ سکے تو اچھی بات ہے ورنہ حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے طواف شروع کر دے۔ ہر چکر حجر اسود پر ختم ہوگا۔ ہر چکر کی ابتدا میں حجر اسود کو بوسہ دینا یا چھونا ہوگا ورنہ برابر سے اشارہ کر کے نیا چکر شروع کر دے۔ آخری چکر ختم کر کے پھر حجر اسود کے پاس آئے اور پھر دو رکعت تحیۃ الطواف ادا کرے، پھر حجر اسود کے پاس آئے، پھر حج یا عمرے کی صورت میں سعی کرے۔ عام طواف میں صفا مروہ کی سعی نہیں کی جاتی عمرے کے طواف یا حج کے پہلے طواف میں رمل اور اضطباع بھی کیا جاتا ہے۔ رمل سے مراد پہلے تین چکروں میں بھاگنے کے انداز میں کندھے ہلا کر چلنا ہے اور اضطباع سے مراد دائیں کندھے کو ننگا کرنا ہے۔ اضطباع پورے طواف میں ہوگا، البتہ طواف سے پہلے یا بعد میں اضطباع نہیں ہوگا۔ مذکورہ دو طوافوں کے علاوہ کسی طواف میں رمل یا اضطباع نہیں ہوگا۔ (2)”دائیں طرف کو چلے۔“ حجر اسود کی دائیں طرف کیونکہ بیت اللہ کے دروازے کی دائیں طرف، حجر اسود والی جانب ہی بنتی ہے، یا اپنی دائیں طرف اگر منہ بیت اللہ کی طرف ہو۔ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2942
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2947
´طواف کعبہ میں حجر اسود سے لے کر حجر اسود تک رمل کرنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کرتے یہاں تک آپ نے تین پھیرے پورے کئے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2947]
اردو حاشہ: (1)”حجر سے حجر تک“ یعنی پورے چکر میں رمل کرنا ہوگا۔ اگرچہ عمرۃ القضا میں جب رمل کی ابتدا ہوئی تھی، رمل تین جانب کیا گیا تھا۔ جنوبی جانب چونکہ کفار سے اوجھل تھی، لہٰذا وہاں صحابہ رمل نہ کرتے تھے، پھر جب رمل کو شرعی حیثیت دے دی گئی تو اسے پہلے طواف کے پہلے تین مکمل چکروں میں مقرر کر دیا گیا۔ یہ تین چکروں میں کیا جائے گا مگر مکمل چکر میں۔ (2) رمل مسنون ہے، لہٰذا حتی الامکان رمل کرنا چاہیے، البتہ اگر اس قدر رش ہو کہ رمل ممکن نہ ہو تو جہاں جگہ ملے، رمل کر لے۔ جہاں جگہ نہ ملے، وہاں مجبوری ہے۔ رمل کی قضا ہے نہ کوئی فدیہ۔ اگر کوئی بھول جائے یا اسے علم نہ ہو، یا رش، کمزوری یا بیماری کی وجہ سے نہ کر سکے تو آخری تین چکروں میں یا کسی دوسرے طواف میں قضا نہ کی جائے گی اور نہ اس پر کوئی فدیہ ہی ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2947
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2966
´طواف کی دونوں رکعت میں قرأت کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام ابراہیم پر پہنچے تو آپ نے آیت کریمہ: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، تو اس میں آپ نے سورۃ فاتحہ اور «قل يا أيها الكافرون»، اور «قل هو اللہ أحد» پڑھی پھر آپ حجر اسود کے پاس آئے، اور آپ نے اس کا استلام کیا، پھر آپ صفا کی طرف نکلے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2966]
اردو حاشہ: معلوم ہوا کہ طواف کی دو رکعتیں ہلکی ہونی چاہئیں۔ فجر اور مغرب کی سنتوں میں بھی یہی دو سورتیں پڑھنا منقول ومسنون ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2966
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3969
´باب:۔۔۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى»”اور مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنا لو۔۔۔“(سورۃ البقرہ: ۱۲۴)(امر کے صیغہ کے ساتھ بکسر خاء) پڑھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 3969]
فوائد ومسائل: 1) اس لفظ میں دوسری قراءت خا پرزبر یعنی صیغہ ماضی کے ساتھ ہے اور معنی: اور لوگوں نےمقام ابراہیم کو جاے نماز بنالیا۔
2) مقام ابراہیم بیت اللہ میں وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکرحضرت ابراہیم خلیل اللہ بیت اللہ کی تعمیر کرتےرہے اور اس میں آپ کے قدم نقش ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3969
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2951
´بیت اللہ کے طواف میں رمل کرنے کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے شروع کر کے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار میں عام چال چلے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2951]
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1) حجر سے مراد حجرِ اسود ہے کیونکہ طواف اس سے شروع ہوتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ س روایت ہے انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب مکہ تشریف لاتے تو سب سے پہلے طواف میں رکن اسود (حجر اسود) کا استلام فرماتے اور (اس طواف میں) سات میں سے تین چکروں میں سے تیز چلتے۔ (صحيح البخاري، الحج، باب استلام الحجر الاسود حين يقدم مكة۔ ۔ ۔ ۔ ، حديث: 1603)
(2) ۔ حجر (اسود) سے حجر (اسود) کا مطلب یہ ہے کہ طواف کا چکر حجراسود سے شروع ہوکر حجراسود پر ختم ہوتا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ تین چکروں میں کعبہ کے چاروں طرف بھاگ کر چلتے تھے جیسے کی حدیث 2953 میں وضاحت ہے۔
(3) رمل کا مطلب چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے تیز چلنا ہے۔ یہ مردوں کے لیے پہلے طواف کے تین چکروں میں مشروع ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2951
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2960
´طواف کے بعد کی دو رکعت کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کے پاس آئے، عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ہمارے باپ ابراہیم کی جگہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى»”مقام ابراھیم کو نماز کی جگہ بناؤ“، ولید کہتے ہیں کہ میں نے مالک سے کہا: کیا اس کو اسی طرح (بکسر خاء) صیغہ امر کے ساتھ پڑھا؟ انہوں نے کہا: ہاں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2960]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ شریف کو تعمیر کیا تھا۔
(2) ولید بن مسلم نے امام مالک سے آیت کی قرات کے متعلق دریافت فرمایا کیونکہ اس آیت کی دوسری قرات بھی ہے جو اس طرح ہے ﴿وَاتَّخَذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ﴾(صیغہ امر کے بجائے صیغہ ماضی کے ساتھ) اس صورت میں آیت کا ترجمہ اس طرح ہوگا: اور لوگوں نے (اللہ کے حکم سے) ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ بنالیا۔ یعنی سابقہ شریعت میں بھی یہ حکم موجود تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2960
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 856
´طواف کی کیفیت کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے تو آپ مسجد الحرام میں داخل ہوئے، اور حجر اسود کا بوسہ لیا، پھر اپنے دائیں جانب چلے آپ نے تین چکر میں رمل کیا ۱؎ اور چار چکر میں عام چال چلے۔ پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پاس آ کر فرمایا: ”مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ“، چنانچہ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور مقام ابراہیم آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا۔ پھر دو رکعت کے بعد حجر اسود کے پاس آ کر اس کا استلام کیا۔ پھر صفا کی طرف گئے۔ میرا خیال ہے کہ (وہاں) آپ نے یہ آیت پڑھی: «(إن الصفا والمروة من شعائر الله»”صفا اور مروہ اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 856]
اردو حاشہ: 1؎: رمل یعنی اکڑ کر مونڈھا ہلاتے ہوئے چلنا جیسے سپاہی جنگ کے لیے چلتا ہے، یہ طواف کعبہ کے پہلے تین پھیروں میں سنت ہے، نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو یہ حکم اس لیے دیا تھا کہ وہ کافروں کے سامنے اپنے طاقت ور اور توانا ہونے کا مظاہرہ کر سکیں، کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ مدینہ کے بخار نے انہیں کمزور کر دیا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 856