ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہو اور وہ اپنی سرین سے ہوا نکلنے کا شبہ پائے تو وہ (مسجد سے) نہ نکلے جب تک کہ وہ ہوا کے خارج ہونے کی آواز نہ سن لے، یا بغیر آواز کے پیٹ سے خارج ہونے والی ہوا کی بو نہ محسوس کر لے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زید، علی بن طلق، عائشہ، ابن عباس، ابن مسعود اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور یہی علماء کا قول ہے کہ وضو «حدث» ہی سے واجب ہوتا ہے کہ وہ «حدث» کی آواز سن لے یا بو محسوس کر لے، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب «حدث» میں شک ہو تو وضو واجب نہیں ہوتا، جب تک کہ ایسا یقین نہ ہو جائے کہ اس پر قسم کھا سکے، نیز کہتے ہیں کہ جب عورت کی اگلی شرمگاہ سے ہوا خارج ہو تو اس پر وضو واجب ہو جاتا ہے، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 75]
وضاحت: ۱؎: مقصود یہ ہے کہ انسان کو ہوا خارج ہونے کا یقین ہو جائے خواہ ان دونوں ذرائع سے یا کسی اور ذریعہ سے، ان دونوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر محض اس لیے کیا گیا ہے کہ اس باب میں عام طور سے یہی دو ذریعے ہیں جن سے اس کا یقین ہوتا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 75
اردو حاشہ: 1؎: مقصود یہ ہے کہ انسان کو ہوا خارج ہونے کا یقین ہو جائے خواہ ان دونوں ذرائع سے یا کسی اور ذریعہ سے، ان دونوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر محض اس لیے کیا گیا ہے کہ اس باب میں عام طور سے یہی دو ذریعے ہیں جن سے اس کا یقین ہوتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 75
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 66
´شک کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا وجد احدكم فى بطنه شيئا فاشكل عليه: اخرج منه شيء ام لا؟ فلا يخرجن من المسجد، حتى يسمع صوتا او يجد ريحا . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں ہوا کی حرکت محسوس کرے اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے کہ آیا پیٹ سے کوئی چیز خارج ہوئی ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں (وضو کرنے کیلئے) وہ مسجد سے باہر نہ جائے، تاوقتیکہ (یقین نہ ہو جائے) ہوا کے خارج ہونے کی آواز یا بدبو سے محسوس کرے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 66]
� لغوی تشریح: «وَجَدَ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا» اپنے پیٹ میں کسی چیز کو محسوس کیا، گویا ریح گردش کر رہی ہے۔ «أَشْكَلَ» مشتبہ ہو جائے، مشکل ہو جائے۔ «أَخْرَجَ» ہمزہ اس میں استفہام کا ہے، یعنی اسے یہ شک پڑ جائے کہ آیا ریح خارج ہوئی ہے یا نہیں۔ «فَلَا يَخْرُجَنَّ» محض شک اور تردد کی بنا پر نماز نہ توڑے۔ «حَتَّى يَسْمَعَ» یہاں تک کہ وہ ہوا کے بآواز خارج ہونے کو سنے۔ «أَوْ يَجِدَ رِيحًا» یا پھر پیٹ سے خارج ہونے والی بے آواز ہو کی بدبو محسوس کرے۔ مقصود یہ ہے کہ انسان کو یقین ہو جائے کہ ہوا پیٹ سے خارج ہوئی ہے، خواہ ان دو طریقوں کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہو۔ ان دو کا بالخصوص ذکر محض اس لیے کیا ہے کہ اس کے یقین میں یہی دو ذرائع غالب ہیں۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث کی رو سے صاف معلوم ہوا کہ شک کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ ➋ اس مفہوم کو ذرا وسیع کریں تو اس سے ایک اصول کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے کہ ہر چیز اپنے حکم اور اصل پر قائم رہتی ہے، تاوقتیکہ اس کے برخلاف یقین و وثوق نہ ہو جائے۔ شک و تردد کوئی قابل اعتبار چیز نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 66
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 177
´وضو میں تسلسل لازم ہے` «. . . أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَوَجَدَ حَرَكَةً فِي دُبُرِهِ أَحْدَثَ أَوْ لَمْ يُحْدِثْ فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ، فَلَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو پھر وہ اپنی سرین میں کچھ حرکت محسوس کرے، اور اسے شبہ ہو جائے کہ وضو ٹوٹا یا نہیں، تو جب تک کہ وہ آواز نہ سن لے، یا بو نہ سونگھ لے، نماز نہ توڑے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 177]
فوائد و مسائل: جب طہارت کا یقین ہو اور وضو ٹوٹنے کا محض شبہ ہو تو نمازی کو چاہیے کہ اپنے یقین پر عمل کرے۔ اور ویسے بھی مسلمان کو شبہات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے بلکہ شبہات سے بچنا چاہیے۔ اسی لیے فقہ کا قاعدہ ہے کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ [الاشباہ والنظائر]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 177
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 74
´ہوا خارج ہونے سے وضو کے ٹوٹ جانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو واجب نہیں جب تک آواز نہ ہو یا بو نہ آئے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 74]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شک کی وجہ سے کہ ہوا خارج ہوئی یا نہیں وضو نہیں ٹوٹتا، اور اس سے ایک اہم اصول کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ ہر چیز اپنے حکم پر قائم رہتی ہے جب تک اس کے خلاف کوئی بات یقین و وثوق سے ثابت نہ ہو جائے، محض شبہ سے حکم نہیں بدلتا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 74
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 805
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی ایک کو اپنے پیٹ میں گڑبڑ محسوس ہو اور اسے اشتباہ پیدا ہو جائے کہ اس کے پیٹ سے کچھ نکلا ہے یا نہیں تو ہرگز اس وقت تک مسجد سے نہ نکلے، جب تک ریح کی آواز یا بدبو محسوس نہ کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:805]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے یہ اصول اور ضابطہ نکلتا ہے کہ (الْيَقِيْنُ لَايَزُوْلُ بَالشَّك) کہ یقین، شک سے زائل نہیں ہوتا، اور ہر چیز اپنے اصل پر قائم اور برقرار رہے گی جب تک اس کے خلاف یقین حاصل نہیں ہوتا اس لیے جمہور آئمہ کا موقف یہی ہے کہ وضو اس وقت تک نہیں ٹوٹے گا جب تک اس کا یقین حاصل نہ ہو۔ ہاں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دو قول منقول ہیں۔ (1) شک سے ہر حالت میں (نماز کے اندر اور نماز سے باہر) وضو ٹوٹ جائے گا۔ (2) اگر نماز شروع نہ کی ہو تو شک سے وضو ٹوٹ جائے گا لیکن جمہور کا موقف حدیث کے مطابق ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 805
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 28
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے پیٹ میں کوئی چیز محسوس کرے اور شک میں مُبتلا ہوجائے کہ آیا اس کے پیٹ سے کوئی چیز نکلی ہے یا نہیں، تو وہ (مسجد سے) ہر گز نہ نکلے حتیٰ کہ آواز سن لے یا بُو محسوس کرے۔“[صحيح ابن خزيمه ح: 28]
فوائد:
یہ احادیث دلیل ہیں کہ ہجرت مدینہ سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھتے رہے اور ہجرت مدینہ اور تحویل قبلہ سے قبل یہود و نصاریٰ کی طرح مسلمانوں کا قبلہ بھی بیت المقدس تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید خواہش کے پیش نظر خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا گیا۔ اور ہجرت مدینہ کے بعد تحویل کعبہ کے حکم کے بعد سے اہل اسلام کا مستقل قبلہ خانہ کعبہ ہے۔ دوران نماز جس کی طرف منہ کرنا تمام اہل اسلام پر واجب ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 28