الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
32. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْعَوْدِ فِي الصَّدَقَةِ
32. باب: صدقہ دے کر واپس لینے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 668
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ: أَنَّهُ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ رَآهَا تُبَاعُ فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنا چاہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا صدقہ واپس نہ لو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 668]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الزکاة 100 (2617)، (تحفة الأشراف: 10526)، وأخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 59 (1490)، والہبة 30 (2623)، و37 (2636)، والوصایا 31 (2775)، والجہاد 119 (2970)، و137 (3003)، صحیح مسلم/الہبات 1 (1620)، سنن النسائی/الزکاة 100 (2616)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 1 (2390)، موطا امام مالک/الزکاة 26 (49)، مسند احمد (1/40، 54)، من غیر ہذا الطریق کما أخرجہ صحیح البخاری/الزکاة 59 (1489)، وسنن النسائی/الزکاة 100 (2618)، من مسند عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے، ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہا ہے، لیکن جمہور نے اسے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں، قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسا اوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتا ہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتا ہے، نیز بظاہر یہ حدیث ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث «لا تحل الصدقة إلا لخمسة لعامل عليها اورجل اشتراها بما … الحديث» کے معارض ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی الله عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول کی جائے گی اور ابوسعید رضی الله عنہ والی روایت بیان جواز پر، یا عمر رضی الله عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اور ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2390)

   صحيح البخاريلا تبتعها ولا ترجعن في صدقتك
   صحيح البخاريلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   صحيح البخاريلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   صحيح البخاريلا تعد في صدقتك
   صحيح مسلملا تعد في صدقتك يا عمر
   صحيح مسلملا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   جامع الترمذيلا تعد في صدقتك
   جامع الترمذيمثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كالكلب أكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد فرجع في قيئه
   سنن أبي داودلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   سنن النسائى الصغرىلا تعرض في صدقتك
   سنن النسائى الصغرىلا تعد في صدقتك
   سنن ابن ماجهالعائد في هبته كالكلب يعود في قيئه
   سنن ابن ماجهلا تبتع صدقتك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسملا تبتعه ولا تعد فى صدقتك

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 668 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 668  
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے،
ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہا ہے،
لیکن جمہور نے اسے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں،
قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسا اوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتا ہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتا ہے،
نیز بظاہر یہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ((لَا تَحِلُّ الصَّدقَةُ إلَّا لِخَمْسَةٍ:
 لِعَامِلٍ عَلَيْهَا أَوْ رَجُلِِ اِشْتَرَاهَا بِمَالِهِ...الحديث)
)
کے معارض ہے،
تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول کی جائیگی اور ابو سعید رضی اللہ عنہ والی روایت بیان جواز پر،
یا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 668   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 286  
´صدقہ دے کر واپس لینے کی وعید`
«. . . وبه: أن عمر بن الخطاب حمل على فرس عتيق فى سبيل الله، فوجده يباع، فأراد أن يبتاعه فسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: لا تبتعه ولا تعد فى صدقتك . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستے میں ایک بہترین گھوڑا صدقہ کیا تھا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنے کا ارادہ کیا، پھر انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 286]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2971، ومسلم 1620، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ نیز دیکھئے: [حديث: 214]
② جو شخص کسی کو صدقہ دے تو اسے واپس (یعنی دوبارہ) خرید نہیں سکتا۔
③ جسے صدقہ دیا جائے وہ ضرورت کے وقت اسے بیچ سکتا ہے۔
④ صدقہ واپس لینا جائز نہیں ہے۔
⑤ شریعت نے حیل (حیلہ بازی) کا سدباب کیا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 214   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1593  
´زکاۃ دے کر پھر اس کو خریدنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑا دیا، پھر اسے بکتا ہوا پایا تو خریدنا چاہا تو اور اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے مت خریدو، اپنے صدقے کو مت لوٹاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1593]
1593. اردو حاشیہ:
➊ جو مال اللہ کی راہ میں دے دیا ہو۔ پھر دوبارہ اس میں طمع نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اللہ سے اجر کی اُمید رکھنی چاہیے۔ (نیکی کردریا میں ڈال) کا یہی مفہوم ہے۔ بعض لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اس کے معاملے پر نظر رکھتے ہیں۔ جو مناسب نہیں۔ اسی حدیث میں اسی لیے صدقہ شدہ مال کے خریدنے سے منع کیا گیا ہے۔ تاہم جہاں یہ بات نہ ہو وہاں جمہور کے نزدیک اس کا جواز ہے۔ جیسے کسی تیسرے شخص سے اسے خرید لیا جائے۔ یا وراثت میں وہ چیز اس کے پاس آجائے۔ [شرح سنن أبي داود۔ علامہ بدر الدین عینی: 294/6)
➋ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کسی بھی نئے اقدام سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرلیا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ زندگی کے تمام امور ضابطہ اسلام سے مربوط ہیں۔ چنانچہ ہر مسلمان کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اور قرآن وسنت سے رہنمائی لینی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1593   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2617  
´صدقہ خریدنے کا بیان۔`
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے، تو انہوں نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم اپنے صدقے میں آڑے نہ آؤ۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2617]
اردو حاشہ:
کیونکہ بہر صورت یہ اپنے ہی صدقے کو استعمال کرنے والی بات ہے جو مناسب نہیں۔ باقی رہی قیمت تو اس میں بھی رعایت کا احتمال ہے، نیز اس میں حیلہ بھی ممکن ہے، اس لیے اسے حتماً منع فرما دیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2617   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2618  
´صدقہ خریدنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا، اس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ بیچا جا رہا ہے۔ تو انہوں نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے اس بارے میں اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: اپنا صدقہ واپس نہ لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2618]
اردو حاشہ:
اپنا کیا ہوا صدقہ اپنے اختیار سے، مثلاً: خرید کر یا رجوع کر کے تو واپس نہیں لے سکتا، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر اس کے پاس آجائے، مثلاً: جسے صدقہ دیا تھا وہ فوت ہوگیا اور یہ صدقہ کرنے والا اس کا وارث بنتا ہے اور وراثت میں وہی صدقہ اسے واپس مل جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1149) بعض اہل علم نے اس حدیث سے یہ استنباط بھی کیا ہے: جس لونڈی کو آزاد کرے، اس سے پھر نکاح نہ کرے کیونکہ یہ بھی صدقے میں رجوع ہی کی صورت ہے۔ حالانکہ یہ تو احسان پر احسان ہے اور حدیث صحیح میں اسے دگنے ثواب کا سبب بھی قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري:، العلم، حدیث: 97) خود رسول اللہﷺ نے حضرت صفیہؓ کو آزاد کر کے ان سے نکاح فرمایا، لہٰذا یہ استنباط درست نہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5086، وصحیح مسلم، النکاح، حدیث: 1365)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2618   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2392  
´صدقہ کر دینے کے بعد کیا اسے بکتا ہوا پا کر خرید سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک گھوڑا صدقہ کیا، پھر دیکھا کہ اس کا مالک اس کو کم دام میں بیچ رہا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا صدقہ مت خریدو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2392]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خریدنا اگرچہ واپس لینا نہیں ہے لیکن اس سے ظاہری طور پرمشابہت رکھتا ہے اس لیے اس بھی منع کردیا گیا تاکہ یہ صدقہ واپس لینےکا ایک حیلہ نہ بن جائے۔

(2)
صدقہ کی ہوئی چیز واپس خریدنے کی خواہش سےمعلوم ہوتا ہے کہ ابھی دل اس میں اٹکا ہوا ہے۔
یہ مناسب نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جو کچھ دے دیا، دےدیا، اب دوبارہ حصول کی خواہش کیوں کی جائے۔

(3)
صدقہ کی ہوئی چیز جب سستی مل رہی ہوتو جتنی رقم کم خرچ کی گویا اتنی رقم صدقہ دے کر اپنی چیز واپس لےلی اس لیے یہ جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2392   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3002  
3002. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے کسی کو فی سبیل اللہ گھوڑا دیا۔ پھر انھوں نے دیکھا کہ وہی گھوڑا فروخت ہورہا ہے۔ انھوں نے اسے خریدنے کا ارادہ فرمایا تو اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اب تم اسے مت خریدو اور اپنے صدقے کو واپس نہ لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3002]
حدیث حاشیہ:
ایسی چیز جو بطور صدقہ خیرات کسی کو دے دی جائے اس کا واپس قیمت دے کر بھی لینا جائز نہیں ہے‘ جیسا کہ یہاں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3002   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2775  
2775. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے کسی کو فی سبیل اللہ سواری کے لیے گھوڑا دیا جو انھیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا تھا تاکہ وہ کسی مجاہد کو اس پر سوارکریں۔ حضرت عمر ؓ کو خبر ملی کہ جس کے لیے گھوڑاوقف کیا تھا وہ اسے فروخت کر رہا ہے۔ انھوں نےرسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا کہ وہ اس گھوڑے کو خرید سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اسے مت خریدواور اپنے صدقے میں کبھی رجوع نہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2775]
حدیث حاشیہ:
گو حضرت عمر ؓ نے یہ گھوڑا صدقہ دیا تھا مگر وقف کا حکم بھی صدقہ پر قیاس کیا‘ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وقف میں اصل جائداد روک لی جاتی ہے اور صدقہ میں اصل جائداد کی ملکیت منتقل کی جاتی ہے‘ اس لئے یہ قیاس صحیح نہیں۔
اب یہ کہنا کہ حضرت عمر ؓ نے یہ گھوڑا وقف کیا تھا‘اس لئے صحیح نہیں ہوسکتا کہ اگر وقف کیا ہوتا تو وہ شخص جس کو گھوڑا ملا تھا‘ اس کو بیچنے کے لئے بازار میں کیونکر کھڑا کر سکتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2775   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2971  
2971. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کسی کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے گھوڑا دیا۔ پھر اسے فروخت ہوتا پایا تو اسے خرید نے کا ارادہ کیا۔ اس کے متعلق انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خرید اور اپنے صدقہ وخیرات میں رجوع نہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2971]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓنے وہ گھوڑا ایک شخص کو جہاد کے خیال سے بطور امداد دے دیا تھا۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
بعد میں وہ شخص اس کو بازار میں بیچنے لگا جس کا ذکر روایت میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2971   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1489  
1489. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک گھوڑا اللہ کے راستے میں صدقہ کردیا، پھر دیکھا کہ اسے فروخت کیا جارہاہے تو انھوں نے اس کے خریدنے کا ارادہ کیا، پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا:اپنے صدقے کو واپس نہ لو۔ اس بنا پر حضرت ابن عمر ؓ جب اپنی کسی صدقہ کردہ چیز کو فروخت ہوتا دیکھتے تو اسے خرید کر صدقہ کردیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1489]
حدیث حاشیہ:
(1)
فی سبیل اللہ دینے کے دو مفہوم ہیں:
٭ اس گھوڑے کو آپ نے وقف کر دیا تھا، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ وقف کردہ چیز کو خریدنا منع ہے۔
٭ آپ نے اس گھوڑے کو غازی کی ملک کر دیا تھا، اس نے اسے فروخت کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت عمر ؓ نے اسے خریدنا چاہا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آپ کو منع کر دیا۔
اسے خریدنے سے منع کرنے کی دو وجہیں ممکن ہیں:
٭ صدقہ کرنے والے کی غرض آخرت میں ثواب لینا تھا، جب اسے سستے داموں خریدے گا تو گویا اس نے آخرت سے روگردانی کر کے دنیا کو اختیار کیا۔
اور ایسا کرنا نیک لوگوں کے شایان شان نہیں۔
٭ مفت میں حاصل کرنے والا شخص جب اسے فروخت کرتا ہے تو سستے داموں بیچتا ہے، صدقہ کرنے والے کو تو مزید سستا دے گا، تو جتنی مقدار کم ہو گی گویا صدقے کی اتنی مقدار اس سے واپس لے رہا ہے اور ایسا کرنا سخت منع ہے۔
شرعا اس کی اجازت نہیں۔
ہاں اگر کوئی شخص صدقہ شدہ چیز کا وارث بن جائے یا کسی تیسرے آدمی کی طرف منتقل ہونے کے بعد صدقہ کرنے والا خرید لے تو اس صورت میں کوئی کراہت نہیں۔
(2)
حضرت ابن عمر ؓ کا موقف تھا کہ اسے خرید کر اپنی ملکیت بنانا منع ہے، اگر خرید کر آگے صدقہ کر دیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہے اور یہ ممنوعہ صورت نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1489   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2775  
2775. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے کسی کو فی سبیل اللہ سواری کے لیے گھوڑا دیا جو انھیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا تھا تاکہ وہ کسی مجاہد کو اس پر سوارکریں۔ حضرت عمر ؓ کو خبر ملی کہ جس کے لیے گھوڑاوقف کیا تھا وہ اسے فروخت کر رہا ہے۔ انھوں نےرسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا کہ وہ اس گھوڑے کو خرید سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اسے مت خریدواور اپنے صدقے میں کبھی رجوع نہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2775]
حدیث حاشیہ:
(1)
غیر منقولہ اشیاء کا وقف تو عام ہے، مثلاً:
مسجد بنانا، مدرسہ تعمیر کرانا، کنواں جاری کرنا، زمین وقف کرنا، سرائے بنوانا وغیرہ۔
امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ منقولہ اشیاء کا وقف بھی جائز ہے جس کی صورتیں حسب ذیل ہو سکتی ہیں:
٭ موبائل ہسپتال بنا کر وقف کرنا۔
٭ ایمبولینس خرید کر وقف کرنا۔
٭ برتن وغیرہ خرید کر رکھنا تاکہ رفاہ عام میں ان کو استعمال کیا جا سکے۔
٭ مسافروں کے لیے بستر تیار کر کے وقف کرنا۔
٭ مساجد میں مصاحف رکھنا۔
٭ کتب احادیث خرید کر طلبہ اور مدرسین کو وقف کرنا۔
٭ مجاہدین کے لیے اسلحہ اور سواری کا بندوبست کرنا۔
یہ سب منقولہ اشیاء کا وقف ہے۔
ایسا کرنا جائز ہے۔
(2)
امام زہری ؒ کے اثر کے متعلق ہمارا رجحان یہ ہے کہ اگر خود اس کا محتاج ہو جائے تو نفع حاصل کرنا جائز ہے کیونکہ ایسے حالات میں وہ بھی ایک مسکین ہی شمار ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2775   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2971  
2971. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کسی کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے گھوڑا دیا۔ پھر اسے فروخت ہوتا پایا تو اسے خرید نے کا ارادہ کیا۔ اس کے متعلق انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خرید اور اپنے صدقہ وخیرات میں رجوع نہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2971]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمرفاروق ؓنے جو گھوڑا اللہ کی راہ میں دیاتھا وہ وقف نہیں تھا بلکہ غازی کی ملکیت تھا۔
اگر وقف ہوتا تو اسے فروخت کرناجائز نہیں تھا۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان:
اپنا صدقہ واپس نہ لو۔
اس بات کی تائید کرتا ہے کہ وہ گھوڑا وقف نہیں تھا بلکہ غازی کی ملکیت تھا۔
اس طرح وہ اسے آگے فروخت کرنے کا حق دار ہوا کیونکہ آپ نے وہ گھوڑا کسی کو جہاد کے خیال سے بطورتعاون دیا تھا، اب وہ مجاہد اس میں تصرف کا حقدار ٹھہرا حتی کہ وہ اس کی خریدوفروخت کا بھی مستحق ہوا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2971