فقہ الحدیث ◈ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور علامہ ابن حزم رحمها اللہ نے صحیح کہا ہے۔
◈ علاوہ ان کے امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔
[البدر المنير بحواله ابكار المنن: ص 21] ◈ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو حسن قرار دیا ہے۔
[ترمذي مع تحفه ص 66 ج1] معترض کا اعتراض: یہاں پانی کی کوئی قید نہیں کہ کتنا پانی ناپاک نہیں ہوتا تو چاہئے کہ گھڑے لوٹے میں بھی حیض کے کپڑے، کتوں کا گوشت ڈال کر پیا کرو کیونکہ پانی کو کوئی چیز ناپاک ہی نہیں کرتی۔ [جاء الباطل: ج2، ص227]
تبصرہ: اولاً مفتی صاحب! پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی واقعہ ہوا ہے کنویں کے پانی کے سوال کے جواب میں لہٰذا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کنویں کے پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی چنانچہ:
◈ فریق ثانی کی دیوبندی شاخ کے محدث عظیم مولانا فخر الحسن گنگوہی لکھتے ہیں:
«لا ينجسه شئي لكثرته فان بئر بضاعة كان كثير الماء لا يتغير بوقوع هذه الأشياء، والماء الكثير لا ينجسه شئي .» [ [حاشيه ابوداؤد: ج1، ص9] ] ”پانی کو کوئی چیز پلید نہیں کرتی زیادہ ہونے کی وجہ سے اور کنواں بضاعتہ کا کثیر پانی والا تھا اور ان چیزوں کے گرنے سے اس کے اوصاف نہیں بدلتے تھے اور پانی کثیر کو کوئی چیز پلید نہیں کرتی۔
“ انتھی
◈ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
«فإن بئر بضاعة كثيرة الماء واسعة كان يطرح فيها من الأنجاس مالا يغير لها لونا ولا طعما ولا يظهر له فيها ريح» [معرفة السنن للبيهقي بحواله ابكار المنن: ص 26] ”بضاعتہ کا کنواں زیادہ پانی والا تھا اور کشادہ بھی جس میں نجاستیں گرتی تھیں اور ان سے اس کے پانی کا رنگ، مزہ نہیں بدلتا تھا اور نہ ہی اس سے بدبو آتی تھی۔
“ انتھی