الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
46. بَابُ مَا جَاءَ فِي وُضُوءِ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ
46. باب: مرد اور عورت دونوں کے ایک ہی برتن سے وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 62
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنَ الْجَنَابَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ: أَنْ لَا بَأْسَ أَنْ يَغْتَسِلَ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَعَائِشَةَ , وَأَنَسٍ , وَأُمِّ هَانِئٍ , وَأُمِّ صُبَيَّةَ الْجُهَنِيَّةِ , وَأُمِّ سَلَمَةَ , وَابْنِ عُمَرَ. قال أبو عيسى: وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُهُ: جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے میمونہ رضی الله عنہا نے بیان کیا کہ میں اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اکثر فقہاء کا یہی قول ہے کہ مرد اور عورت کے ایک ہی برتن سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں،
۳- اس باب میں علی، عائشہ، انس، ام ہانی، ام حبیبہ، ام سلمہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 62]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الحیض10 (322) سنن النسائی/الطہارة 146 (237) سنن ابن ماجہ/الطہارة35 (377) (تحفة الأشراف: 18097) مسند احمد (6/329) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اور غسل جائز ہے تو وضو بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخارييغتسلان من إناء واحد
   صحيح مسلمتغتسل هي والنبي في إناء واحد
   جامع الترمذيأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد من الجنابة
   سنن النسائى الصغرىتغتسل ورسول الله من إناء واحد
   سنن ابن ماجهأغتسل أنا ورسول الله من إناء واحد

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 62 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 62  
اردو حاشہ:
1؎:
اور غسل جائز ہے تو وضو بدرجہ اولی جائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 62   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:253  
253. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اور حضرت میمونہ ؓ ایک ہی برتن سے غسل فرمایا کرتے تھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا کہ ابن عیینہ آخر عمر میں عن ابن عباس عن میمونہ کہنے لگے تھے لیکن صحیح الفاظ وہی ہیں جو ابونعیم نے بیان کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:253]
حدیث حاشیہ:

بعض شارحین نے لکھا ہے کہ حدیث میمونہ ؓ کو عنوان سے کوئی مناسبت نہیں، کیونکہ اس حدیث میں برتن کی مقدار نہیں بتائی گئی جبکہ عنوان میں اس کی مقدار ذکر ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ مناسبت کا لحاظ ایک اور مقدمہ ملانے سے ہو گا، وہ یہ کہ ان لوگوں کے برتن چھوٹے تھے۔
جیسا کہ امام شافعی ؒ نے کئی ایک مقام پر اس کی وضاحت کی ہے۔
لہٰذا یہ حدیث نحوہ کے تحت آجاتی ہے۔
دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ حدیث میمونہ ؓ میں بیان شدہ مطلق لفظ (اِناَء) (برتن)
کو حدیث عائشہ ؓ کے مقید لفظ (فَرَق)
پر محمول کریں گے، کیونکہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی زوجات ہیں اور ہر ایک نے آپ کے ساتھ غسل کیا ہے، لہٰذا ہر ایک کے حصے میں ایک صاع سے زیادہ پانی آیا ہو گا، اس لیے وہ برتن جس کا حدیث میمونہ میں ذکر ہے، تقریبی طور پر تحت الترجمہ ہو جائے گا۔
(فتح الباري: 476/1)

امام بخاری ؒ نے حدیث ابن عباس ؓ بروایت ابی نعیم کو دوسروں کی روایت پر ترجیح دی ہے، یعنی اپنی روایت کو مسانید ابن عباس ؓ سے قراردیا ہے اور دوسرے حضرات اسے مسانید میمونہ کہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ مسانید میمونہ قرار دینا حضرت ابن عیینہ ؒ کی آخری عمر سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ مسند ابن عباس کا معاملہ ان کی پہلی عمر سے تعلق رکھتا ہے، اس عمر میں حافظہ قوی ہوتا ہے، لیکن دوسرے لوگوں کی روایت کو بھی حافظ ابن حجر نے قابل ترجیح کہا ہے۔
اس کی وجوہات درج ذیل ہیں۔
* آخری عمر میں ان سے روایت کرنے والے تعداد میں زیادہ ہیں اور انھیں اپنے شیخ کے ساتھ زیادہ مدت تک رہنے کا موقع ملا ہے۔
* حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما خود تو رسول اللہ ﷺ کے حضرت میمونہ ؓ کے ساتھ غسل کرنے کی کیفیت پر مطلع نہیں ہو سکتے تھے لہٰذا انھوں نے اس کا علم حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بتانے سے ہی حاصل کیا ہو گا۔
(فتح الباري: 476/1)
ایک تیسری وجہ علامہ عینی نے بیان کی ہے کہ مسلم نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ چاروں نے اس حدیث کو عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما میمونہ ہی بیان کیا ہے یعنی ان محدثین کے نزدیک یہ روایت مسانید میمونہ سے ہے۔
(عمدة القاري: 17/3)
مسند حمیدی میں بھی اس روایت کو حضرت میمونہ ؓ سے بیان کیا گیا ہے۔
(مسندالحمیدي، رقم: 309)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 253