الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
44. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ لِكُلِّ صَلاَةٍ
44. باب: ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 60
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ مَهْدِيّ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأنْصَارِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ , قُلْتُ: فَأَنْتُمْ مَا كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ؟ قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ نُحْدِثْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ حَدِيثٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ.
عمرو بن عامر انصاری کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، میں نے (انس سے) پوچھا: پھر آپ لوگ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم «حدث» نہ کرتے ساری نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور حمید کی حدیث جو انس سے مروی ہے جید غریب حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 60]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الطہارة 54 (214) سنن النسائی/الطہارة 101 (131) سنن ابن ماجہ/الطہارة 72 (509) (تحفة الأشراف: 1110) مسند احمد (3/132، 194، 260)، سنن الدارمی/ الطہارة 46 (747) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (509)

   جامع الترمذييتوضأ عند كل صلاة نصلي الصلوات كلها بوضوء واحد ما لم نحدث
   سنن أبي داوديتوضأ لكل صلاة نصلي الصلوات بوضوء واحد
   سنن ابن ماجهيتوضأ لكل صلاة نصلي الصلوات كلها بوضوء واحد

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 60 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 60  
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث کے رواۃ مدینہ کے لوگ نہیں ہیں بلکہ اہل مشرق (اہل کوفہ اور بصرہ) ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اتنے معتبر نہیں ہیں جتنا اہل مدینہ ہیں۔

نوٹ:
(سند میں عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں،
اور ابو غطیف مجہول ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 60   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 171  
´ہر نماز کے لیے تازہ وضو`
«. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، وَكُنَّا نُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ . . .»
. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور ہم لوگ ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھا کرتے تھے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 171]
توضیح:
اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے تازہ وضو کیا کرتے تھے تو یہ آپ کا غالب معمول تھا ورنہ بعض مواقع پر آپ نے بھی ایک ہی وضو سے متعدد نمازیں پڑھی ہیں جیسا کہ اگلی روایت سے بھی واضح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 171   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث509  
´ہر نماز کے لیے وضو کرنے اور ایک وضو سے ساری نمازیں پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور ہم ساری نماز ایک وضو سے پڑھ لیا کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 509]
اردو حاشہ:
(1)
ایک نماز کے لیے کیا گیا وضو جب تک باقی ہو نیا وضو کیے بغیردوسری فرض اور نفل نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں۔

(2)
پہلا وضو ٹوٹے بغیر بھی دوسری نماز کے لیے دوبارہ وضو کیا جاسکتا ہے اور یہ طریقہ یعنی وضو پر وضو کرنا افضل ہے البتہ اگر پہلا وضو ٹوٹ جائے تو دوسری نماز کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہے۔ (صحيح البخاري، الوضوء، باب لاتقبل صلاة بغير طهور، حديث: 135 وصحيح مسلم، الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة، حديث: 224)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 509