عیاض بن عبداللہ بن ابی سرح سے روایت ہے کہ ابو سعید خدری رضی الله عنہ جمعہ کے دن (مسجد میں) داخل ہوئے، مروان بن حکم خطبہ دے رہے تھے، وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، پہریدار آئے تاکہ انہیں بٹھا دیں لیکن وہ نہیں مانے اور نماز پڑھ ہی لی، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے ان کے پاس آ کر کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے قریب تھا کہ یہ لوگ آپ سے ہاتھا پائی کر بیٹھتے، تو انہوں نے کہا: میں تو یہ دونوں رکعتیں ہرگز چھوڑنے والا تھا نہیں، بعد اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، پھر انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص جمعہ کے دن پراگندہ حالت میں آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، اس نے دو رکعتیں پڑھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ جب مسجد میں آتے اور امام خطبہ دے رہا ہوتا تو دو رکعتیں پڑھتے تھے، وہ اس کا حکم بھی دیتے تھے، اور ابوعبدالرحمٰن المقری بھی اسے درست سمجھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- میں نے ابن ابی عمر کو کہتے سنا کہ سفیان بن عیینہ کہتے تھے کہ محمد بن عجلان ثقہ ہیں اور حدیث میں مامون ہیں، ۳- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور سہل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جب کوئی مسجد میں داخل ہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ بیٹھ جائے نماز نہ پڑھے، یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے، ۵- پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ علاء بن خالد قرشی کہتے ہیں: میں نے حسن بصری کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوئے اور امام خطبہ دے رہا تھا، تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر بیٹھے، حسن بصری نے ایسا حدیث کی اتباع میں کیا، یہ حدیث انہوں نے جابر سے اور جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 511]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الزکاة 39 (1675)، (مختصرا)، سنن النسائی/الجمعة 26 (1409)، والزکاة 55 (2537)، (تحفة الأشراف: 4272)، مسند احمد (3/25)، (کلہم بدون ذکر قصة مروان) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے مسجد میں داخل ہوتے وقت دو رکعت ”تحیۃ المسجد“ کی تاکید ثابت ہوتی ہے، اس باب میں اور بہت سی احادیث ہیں حتیٰ کہ تحیۃ المسجد کے لیے مکروہ اوقات کی بھی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ یہ سببی صلاۃ ہے، ہاں اگر کوئی ایسے وقت مسجد میں داخل ہو کہ جب کسی فرض وسنت صلاۃ کا وقت تھا تو فرض وسنت صلاۃ سے تحیۃ المسجد کی بھی ادائیگی ہو جائیگی۔
قال الشيخ الألباني: (حكاية عياض بن عبد الله بن أبي السرح عن أبي سعيد الخدري) حسن صحيح، (قول العلاء بن خالد القرشي عن الحسن البصري) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (1113)
أصليت قال لا قال صل ركعتين وحث الناس على الصدقة فألقوا ثيابا فأعطاه منها ثوبين فلما كانت الجمعة الثانية جاء ورسول الله يخطب فحث الناس على الصدقة قال فألقى أحد ثوبيه فقال رسول الله جاء هذا يوم الجمعة بهيئة بذة فأمرت ال
صل ركعتين ثم جاء الجمعة الثانية والنبي يخطب فقال صل ركعتين ثم جاء الجمعة الثالثة فقال صل ركعتين ثم قال تصدقوا فتصدقوا فأعطاه ثوبين ثم قال تصدقوا فطرح أحد ثوبيه فقال رسول الله ألم تروا إلى هذا أنه دخل المسجد بهيئة بذة
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1409
´جمعہ کے دن امام کے اپنے خطبہ میں صدقہ پر ابھارنے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، تو ایک آدمی خستہ حالت میں (مسجد میں) آیا اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے نماز پڑھی؟“ اس نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”دو رکعتیں پڑھ لو“، اور آپ نے (دوران خطبہ) لوگوں کو صدقہ پر ابھارا، لوگوں نے صدقہ میں کپڑے دیئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے دو کپڑے اس شخص کو دیے، پھر جب دوسرا جمعہ آیا تو وہ شخص پھر آیا، اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، آپ نے لوگوں کو پھر صدقہ پر ابھارا، تو اس شخص نے بھی اپنے کپڑوں میں سے ایک کپڑا ڈال دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص (پچھلے) جمعہ کو بڑی خستہ حالت میں آیا، تو میں نے لوگوں کو صدقے پر ابھارا، تو انہوں نے صدقے میں کپڑے دیئے، میں نے اس میں سے دو کپڑے اس شخص کو دینے کا حکم دیا، اب وہ پھر آیا تو میں نے پھر لوگوں کو صدقے کا حکم دیا تو اس نے بھی اپنے دو کپڑوں میں سے ایک کپڑا صدقہ میں دے دیا“، پھر آپ نے اسے ڈانٹا اور فرمایا: ”اپنا کپڑا اٹھا لو“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1409]
1409۔ اردو حاشیہ: ➊ آپ نے خطبے میں صدقے کی رغبت اس آنے والے شخص کی وجہ سے نہیں دلائی تھی بلکہ یہ تو آپ کے خطبے کا حصہ تھا۔ بعد میں اس کی فقیرانہ حالت کے پیش نظر اس کو بھی دوسرے فقراء کے ساتھ دو کپڑے دے دیے گئے۔ احناف کہتے ہیں: ”آپ نے اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ لوگ اس کی خستہ حالت دیکھ کر اس پر صدقہ کریں، لہٰذا دو رکعت پڑھنے کا حکم عام نہیں بلکہ اس کے ساتھ خاص تھا“ حالانکہ اگر ایسے ہوتا تو پھر سب کپڑے اور صدقہ اسی کو ملنا چاہیے تھا، نیز الگ سے بھی ان دو رکعتوں کا حکم آیا ہے۔ ➋ امام کو اپنے مقتدیوں کے حال احوال کا خیال رکھنا چاہیے۔ ➌ جس چیز کی آدمی کو خود شدید ضرورت ہو، اس کا صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1409
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2537
´جب کوئی صدقہ دے اور وہ خود ضرورت مند ہو تو کیا وہ چیز اسے لوٹائی جا سکتی ہے؟` ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: ”تم دو رکعتیں پڑھو“، پھر وہ شخص دوسرے جمعہ کو بھی آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: ”تم دو رکعتیں پڑھو“، پھر وہ تیسرے جمعہ کو (بھی) آیا، آپ نے فرمایا: ”دو رکعتیں پڑھو“، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”صدقہ دو“، تو لو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2537]
اردو حاشہ: (1)”دو رکعتیں پڑھ۔“ ہر جمعے آپ کا اسے دو رکعات پڑھنے کا حکم دینا دلیل ہے کہ دوران خطبہ میں آنے والا شخص لازماً دو رکعات پڑھے۔ اسے یہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ آپ نے اس لیے نماز کا حکم دیا تھا کہ لوگ اس کی حالت دیکھ کر اس پر صدقہ کریں کیونکہ یہ بات تو تیسرے جمعے میں ہوئی۔ اگر پہلے دو جمعوں میں یہ مقصد ہوتا تو اپ موقع پر صدقے کا حکم دیتے جس طرح تیسرے جمعے کو دیا، نیز صدقے کا حکم عام تھا، تبھی تو اس آنے والے کو صرف دو کپڑے دیے اور پھر بعد میں بھی صدقے کا حکم دیا گیا۔ گویا یہ صدقہ صرف اس شخص کے لیے نہ تھا۔ (2)”ڈانٹا۔“ معلوم ہوا محتاج کا صدقہ کرنا ضروری نہیں بلکہ اسے روکا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2537