ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: ”تم دو رکعتیں پڑھو“، پھر وہ شخص دوسرے جمعہ کو بھی آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: ”تم دو رکعتیں پڑھو“، پھر وہ تیسرے جمعہ کو (بھی) آیا، آپ نے فرمایا: ”دو رکعتیں پڑھو“، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”صدقہ دو“، تو لوگوں نے صدقہ دیا، تو آپ نے اس شخص کو دو کپڑے دئیے، پھر آپ نے پھر فرمایا: ”لوگو صدقہ دو“، تو اس شخص نے اپنے ان دونوں کپڑوں میں سے ایک کو آپ کے سامنے ڈال دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے اس شخص کو نہیں دیکھا؟ یہ خستہ حالت میں مسجد میں آیا، میں نے امید کی کہ تم لوگ اسے دیکھ کر اس کی خستہ حالی کو تاڑ لو گے اور اسے صدقہ دو گے، لیکن تم لوگوں نے ایسا نہیں کیا، تو مجھ ہی کو کہنا پڑا کہ تم صدقہ دو، تو تم لوگوں نے صدقہ دیا تو میں نے اسے دو کپڑے دئیے، پھر لوگوں سے کہا: ”صدقہ دو“، تو اس نے ان کپڑوں میں سے (جو ہم نے اسے دیے تھے) ایک (ہمارے آگے) ڈال دیا، (ارے بیوقوف) تم اپنا کپڑا لے لو، آپ نے اسے ڈانٹا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2537]
أصليت قال لا قال صل ركعتين وحث الناس على الصدقة فألقوا ثيابا فأعطاه منها ثوبين فلما كانت الجمعة الثانية جاء ورسول الله يخطب فحث الناس على الصدقة قال فألقى أحد ثوبيه فقال رسول الله جاء هذا يوم الجمعة بهيئة بذة فأمرت ال
صل ركعتين ثم جاء الجمعة الثانية والنبي يخطب فقال صل ركعتين ثم جاء الجمعة الثالثة فقال صل ركعتين ثم قال تصدقوا فتصدقوا فأعطاه ثوبين ثم قال تصدقوا فطرح أحد ثوبيه فقال رسول الله ألم تروا إلى هذا أنه دخل المسجد بهيئة بذة
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2537
اردو حاشہ: (1)”دو رکعتیں پڑھ۔“ ہر جمعے آپ کا اسے دو رکعات پڑھنے کا حکم دینا دلیل ہے کہ دوران خطبہ میں آنے والا شخص لازماً دو رکعات پڑھے۔ اسے یہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ آپ نے اس لیے نماز کا حکم دیا تھا کہ لوگ اس کی حالت دیکھ کر اس پر صدقہ کریں کیونکہ یہ بات تو تیسرے جمعے میں ہوئی۔ اگر پہلے دو جمعوں میں یہ مقصد ہوتا تو اپ موقع پر صدقے کا حکم دیتے جس طرح تیسرے جمعے کو دیا، نیز صدقے کا حکم عام تھا، تبھی تو اس آنے والے کو صرف دو کپڑے دیے اور پھر بعد میں بھی صدقے کا حکم دیا گیا۔ گویا یہ صدقہ صرف اس شخص کے لیے نہ تھا۔ (2)”ڈانٹا۔“ معلوم ہوا محتاج کا صدقہ کرنا ضروری نہیں بلکہ اسے روکا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2537
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 511
´خطبہ کے دوران آدمی آئے تو پہلے دو رکعت نماز پڑھے` «. . . وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَأَمَرَهُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ . . .» ”. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا . . .“[سنن ترمذي/كتاب الجمعة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 511]
فوائد و مسائل: ↰ اس روایت کو امام ابن خزیمہ [1830] اور امام ابن حبان [2505] رحمہما اللہ نے ”صحیح“ اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ کہا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1409
´جمعہ کے دن امام کے اپنے خطبہ میں صدقہ پر ابھارنے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، تو ایک آدمی خستہ حالت میں (مسجد میں) آیا اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے نماز پڑھی؟“ اس نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”دو رکعتیں پڑھ لو“، اور آپ نے (دوران خطبہ) لوگوں کو صدقہ پر ابھارا، لوگوں نے صدقہ میں کپڑے دیئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے دو کپڑے اس شخص کو دیے، پھر جب دوسرا جمعہ آیا تو وہ شخص پھر آیا، اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، آپ نے لوگوں کو پھر صدقہ پر ابھارا، تو اس شخص نے بھی اپنے کپڑوں میں سے ایک کپڑا ڈال دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص (پچھلے) جمعہ کو بڑی خستہ حالت میں آیا، تو میں نے لوگوں کو صدقے پر ابھارا، تو انہوں نے صدقے میں کپڑے دیئے، میں نے اس میں سے دو کپڑے اس شخص کو دینے کا حکم دیا، اب وہ پھر آیا تو میں نے پھر لوگوں کو صدقے کا حکم دیا تو اس نے بھی اپنے دو کپڑوں میں سے ایک کپڑا صدقہ میں دے دیا“، پھر آپ نے اسے ڈانٹا اور فرمایا: ”اپنا کپڑا اٹھا لو“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1409]
1409۔ اردو حاشیہ: ➊ آپ نے خطبے میں صدقے کی رغبت اس آنے والے شخص کی وجہ سے نہیں دلائی تھی بلکہ یہ تو آپ کے خطبے کا حصہ تھا۔ بعد میں اس کی فقیرانہ حالت کے پیش نظر اس کو بھی دوسرے فقراء کے ساتھ دو کپڑے دے دیے گئے۔ احناف کہتے ہیں: ”آپ نے اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ لوگ اس کی خستہ حالت دیکھ کر اس پر صدقہ کریں، لہٰذا دو رکعت پڑھنے کا حکم عام نہیں بلکہ اس کے ساتھ خاص تھا“ حالانکہ اگر ایسے ہوتا تو پھر سب کپڑے اور صدقہ اسی کو ملنا چاہیے تھا، نیز الگ سے بھی ان دو رکعتوں کا حکم آیا ہے۔ ➋ امام کو اپنے مقتدیوں کے حال احوال کا خیال رکھنا چاہیے۔ ➌ جس چیز کی آدمی کو خود شدید ضرورت ہو، اس کا صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1409