عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران صحابہ میں سے ایک شخص ۱؎(مسجد میں) داخل ہوئے، تو عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: یہ کون سا وقت (آنے کا) ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے صرف اتنی دیر کی کہ اذان سنی اور بس وضو کر کے آ گیا ہوں، اس پر عمر رضی الله عنہ نے کہا: تم نے صرف (وضو ہی پر اکتفا کیا) حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا حکم دیا ہے؟ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 494]
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 212
´جمعہ کی نماز کے لئے غسل کرنا مستحب ہے` «. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا جاء احدكم الجمعة فليغتسل. . .» ”. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ (کی نماز) کے لئے آئے تو وہ غسل کرے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 212]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 877، من حديث مالك و مسلم 844، من حديث نافع به] تفقہ: ➊ اس حدیث اور دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری (واجب) ہے لیکن بعض احادیث سے ثابت ہے کہ یہ غسل ضروری نہیں بلکہ سنت و مستحب ہے۔ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من توضأ فبھا ونعمت ومن اغتسل فذلك أفضل۔» جس نے وضو کیا تو اچھا کیا اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے۔ [صحيح ابن خزيمه: 1757، وسنده حسن، سنن ابي داؤد: 354، والحسن البصري صرح بالسماع عند الطّوسي فى مختصر الاحكام 3/10 ح467/334 وسنده حسن] ◈ حسن بصری کی سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کتاب سے روایت کی وجہ سے حسن ہوتی ہے چاہے سماع کی تصریح ہو یا نہ ہو اور اس روایت میں تو انہوں نے سماع کی تصریح کردی ہے۔ «والحمدلله» ➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: غسل جنابت کی طرح جمعہ کے دن غسل کرنا بھی ہر نوجوان پر واجب ہے۔ [الموطأ 1/101 ح224، وسنده صحيح] ◈ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جمعہ کے دن غسل سنت میں سے ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/96 ح5020 وسنده صحيح، البزار فى كشف الاستار: 627] ◈ امام شعبی نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن وضو کرے تو اچھا ہے اور جو غسل کرے تو افضل ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/96، 97 ح5023 وسنده صحيح] ➌ مجاہد تابعی نے فرمایا: جمعہ کے دن جو شخص طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو یہ اس کے لئے غسل جمعہ کی طرف سے کافی ہے۔ [ابن ابي شيبه 2/99 ح5041 وسنده صحيح] ➍ نظافت کی ترغیب اور اجتماعات میں شرکت کے وقت نظافت کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 204
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1377
´جمعہ کے دن غسل کرنے کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی جمعہ (کی نماز) کے لیے آئے تو اسے چاہیئے کہ غسل کر لے۔“[سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1377]
1377۔ اردو حاشیہ: ➊ غسل کے وجوب کی بحث سابقہ حدیث کے تحت گزر چکی ہے۔ ➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کا غسل جمعۃ المبارک کو آتے وقت کرنا چاہیے، نہ کہ بہت پہلے کیونکہ غسل کا مقصد میل کچیل اور پسینے کی صفائی ہے، اگر بہت پہلے غسل کر لیا جائے تو میل کچیل پھر جمع ہو سکتا ہے اور پسینہ بھی آ سکتا ہے۔ اجتماع میں بدبو پھیلنے کا امکان ہے، لہٰذا غسل جمعۃ المبارک کے لیے آتے وقت کرنا چاہیے، یعنی اس غسل کے ساتھ جمعہ پڑھنا چاہیے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ جمعے کے دن کا غسل ہے، اس لیے کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے مگر جمعے سے پہلے پہلے۔ اہل ظاہر تو جمعے کے بعد بھی غسل کو کافی سمجھتے ہیں۔ مگر علت و سبب یا دیگر احادیث پر غور کیا جائے تو یہ موقف محل نظر لگتا ہے۔ واللہ أعلم۔ ➌ غسل جمعہ، غسل جنابت کی طرح ہونا چاہیے۔ غسل جنابت کی تفصیل پیچھے متعلقہ باب میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1377
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1408
´امام کا اپنے خطبہ میں جمعہ کے دن کے غسل کی ترغیب دلانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے کھڑے فرمایا: ”جو شخص تم میں سے جمعہ کے لیے آئے تو چاہیئے کہ وہ غسل کر لے۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس سند پر لیث کی متابعت کی ہو سوائے ابن جریج کے، اور زہری کے دیگر تلامذہ «عن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر» کے بدلے «سالم بن عبداللہ عن أبيه» کہتے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1408]
1408۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ روایت امام زہری سے بیان کرنے والے بہت سے راوی ہیں، جیسے ابراہیم بن نشیط، محمد بن ولید زبیدی، سفیان بن عینیہ اور ابن جریج۔ یہ سب امام زہری کا استاد حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر بتاتے ہیں۔ صرف حضرت لیث اور ابن جریج نے ان کا استاد عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بتایا ہے۔ دیگر شاگردان کی طرح ابن جریج امام زہری کا استاد سالم بھی بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ جمہور تلامذہ کی موافقت بھی کرتے ہیں۔ غرضیکہ مذکورہ کلام سے امام نسائی رحمہ اللہ امام لیث کی، جن پر ابن جریج نے بھی ان کی موافقت کی ہے، روایت کی تضعیف نہیں فرما رہے، بلکہ ان کا مقصد صرف ذکر اختلاف ہے کیونکہ امام لیث رحمہ اللہ ثقہ اور ثبت (انتہائی قابل اعتماد) ہیں۔ گویا یہ اختلاف ثقہ راوی کی زیادتی کے قبیل سے ہے جو کہ محدثین کے نزدیک سبب ضعف میں سے نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت میں امام زہری کے دو شیخ ہیں، سالم اور عبداللہ بن عبداللہ۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں دونوں شیوخ کے واسطے سے روایت نقل کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: [ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 242/16] الحاصل: یہاں کثرت رواۃ کی بنا پر ترجیح نہیں بلکہ تطبیق ہی درست ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ جمعے کے دن غسل کی بحث کے لیے دیکھیے، حدیث: 1376، 1377 اور اسی کتاب کا ابتدائیہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1408
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 492
´جمعہ کے دن کے غسل کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے اسے چاہیئے کہ (پہلے) غسل کر لے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 492]
اردو حاشہ: 1؎: اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قرار دیا ہے، اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر تاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری (استحباب) ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے ”تیرا حق مجھ پر واجب ہے“ یعنی مؤکد ہے، نہ کہ ایسا وجوب جس کے ترک پر سزا اورعقوبت ہو۔ (اس تاویل کی وجہ حدیث رقم 497 ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 492
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:622
622-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:622]
فائدہ: اس حدیث میں جمعہ کے دن غسل کرنے کا حکم دیا گیا ہے،اس سے فرضیت مراد نہیں ہے، بلکہ دیگر احادیث کی وجہ سے یہ استحباب پر محمول ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 622
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1955
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعے کے دن لوگوں کوخطاب فرمارہےتھے(کہ اسی اثناء میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے ایک شخص داخل ہوا،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں آوازدی: (آنےکی) یہ کون سی گھڑی ہے؟انھوں نے کہا: میں آج مصروف ہوگیا،گھر لوٹتے ہیں میں نے اذان سنی اور صرف وضو کیا(اورحاضر ہوگیاہوں) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اور وہ بھی (صرف) وضو؟حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1955]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہ حاضر ہونے والے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے مصروفیت کی بنا پر وقت کا احساس نہ ہو سکا جب گھر پہنچے تو اس وقت اذان ہوگئی اور وہ وضو کر کے مسجد میں حاضر ہو گئے۔ غسل کے متعلق انھوں نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعتراض کا کوئی عذر پیش نہیں کیا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے غسل نہیں کیا تھا کیونکہ صحیح مسلم میں حمران سے روایت کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوئی دن نہیں گزرتا تھا جس میں غسل نہ کرتے ہوں، عذر نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ جمعہ کو جاتے وقت غسل نہ کر سکے تھے جو کہ افضل تھا۔ (فتح الباری، حدیث 878)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1955
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 878
878. حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک نبی ﷺ کے صحابہ کرام اور مہاجرین اولین میں سے ایک صاحب آئے حضرت عمر ؓ نے آواز دی کہ یہ کون سا آنے کا وقت ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک ضرورت کی وجہ سے مصروف ہو گیا۔ ابھی اپنے گھر واپس نہیں جا سکا تھا کہ اذان کی آواز سن لی تو صرف وضو کر سکا ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (ایک لیٹ آئے ہو اور پھر) صرف وضو کر کے آئے ہو؟ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کا حکم دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:878]
حدیث حاشیہ: یعنی حضرت عمر ؓ نے انہیں تاخیرمیں آنے پر ٹوکا۔ آپ نے عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں غسل بھی نہ کر سکا بلکہ صرف وضوکر کے چلا آیا ہوں۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ گویا آپ نے صرف دیر میں آنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک دوسری فضیلت غسل کو بھی چھوڑ آئے ہیں۔ اس موقع پر قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان سے غسل کے لیے پھر نہیں کہا، ورنہ اگر جمعہ کے دن غسل فرض یا واجب ہوتا تو حضرت عمر کو ضرور کہنا چاہیے تھااور یہی وجہ تھی کہ دوسرے بزرگ صحابی جن کا نام دوسری روایتوں میں حضرت عثمان ؓ آتا ہے، نے بھی غسل کو ضروری نہ سمجھ کر صرف وضو پر اکتفا کیا تھا۔ ہم اس سے پہلے بھی جمعہ کے دن غسل پر ایک نوٹ لکھ آئے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کے طرز عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ کے دوران امام امر ونہی کر سکتا ہے۔ لیکن عام لوگوں کو اس کی اجازت نہیں ہے بلکہ انہیں خاموشی اور اطمینان کے ساتھ خطبہ سننا چاہیے۔ (تفہیم البخاری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 878
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 919
919. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا، جبکہ آپ منبر پر خطبہ دے رہے تھے: ”جو شخص جمعہ کے لیے آئے وہ غسل ضرور کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:919]
حدیث حاشیہ: (اس حدیث سے منبر ثابت ہوا)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 919
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:877
877. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز جمعہ کے لیے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:877]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کے اس عنوان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری نہیں بلکہ مستحب و افضل ہے۔ جیسا کہ علماء کے ایک گروہ کی یہی رائے ہے۔ ان کا استدلال ان روایات سے ہے جن میں اس سبب کی وضاحت کی گئی ہے جس کی وجہ سے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا گیا تھا، چنانچہ روایت میں ہے کہ لوگ اس وقت محنت مزدوری کرتے تھے۔ جب جمعے کا وقت ہوتا تو اسی حالت میں جمعہ کے لیے چلے آتے اور ان کے کپڑوں سے پسینے وغیرہ کی ناگوار بو آتی تھی جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس بات کی شکایت جب رسول اللہ ﷺ سے کی گئی تو آپ نے فرمایا: ”جو تم میں سے جمعہ کے لیے آئے اسے چاہیے کہ غسل کرے۔ “(فتح الباري: 481/7٫2) صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمرو نے ایک دن حضرت عائشہ ؓ سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: لوگ گزر اوقات کے لیے محنت مزدوری کرتے تھے، جب جمعہ کے لیے آتے تو اسی حالت میں چلے آتے۔ انہیں کہا گیا: ”بہتر ہے کہ تم غسل کر کے آؤ۔ “(صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 903) ایک روایت میں ہے کہ ان کے کپڑوں سے ناگوار بو آنے کی وجہ سے انہیں غسل کا حکم دیا گیا، (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2071) تاہم دوسرے علماء وجوب غسل کے قائل ہیں جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ (2) بعض حضرات نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ عنوان تھا کہ آیا عورتیں اور بچے جمعہ کے لیے حاضر ہوں؟ جبکہ اس حدیث میں ان کے حاضر ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کا بایں طور جواب دیا گیا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ عورتوں اور بچوں کو جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ آئندہ حدیث (879) میں ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا بالغ افراد کے لیے ہے جبکہ بچے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں تو انہیں جمعہ میں شریک ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ انہوں نے اس طریقے سے ایک حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں اس امر کی وضاحت ہے کہ عورتوں اور بچوں پر جمعہ میں حاضر ہونا ضروری نہیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1067)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 877
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:878
878. حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک نبی ﷺ کے صحابہ کرام اور مہاجرین اولین میں سے ایک صاحب آئے حضرت عمر ؓ نے آواز دی کہ یہ کون سا آنے کا وقت ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک ضرورت کی وجہ سے مصروف ہو گیا۔ ابھی اپنے گھر واپس نہیں جا سکا تھا کہ اذان کی آواز سن لی تو صرف وضو کر سکا ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (ایک لیٹ آئے ہو اور پھر) صرف وضو کر کے آئے ہو؟ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کا حکم دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:878]
حدیث حاشیہ: (1) دیر سے آنے والے حضرت عثمان ؓ تھے۔ (2) اس روایت سے مذکورہ دونوں قسم کے علماء نے استدلال کیا ہے جو وجوبِ غسل کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ چونکہ صحابۂ کا عام رجحان وجوب غسل کا تھا، اس لیے حضرت عمر ؓ نے صرف وضو کر کے آنے پر تعجب کا اظہار کیا اور حدیث رسول بیان فرمائی جس میں غسل کرنے کا حکم ہے اور امر (حکم) عام طور پر وجوب ہی کے لیے ہوتا ہے۔ عدم وجوب کے قائلین کہتے ہیں کہ اگر غسل واجب ہوتا تو حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓ کو غسل کرنے کا حکم دیتے، صرف تعجب کا اظہار کرنے اور حدیث رسول بیان کرنے پر اکتفا نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں غسل کا حکم وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔ انہوں نے دیگر احادیث سے بھی استدلال کیا ہے، جیسے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جمعہ کے دن جس نے وضو کیا اس نے اچھا اور بہتر کیا اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل اور بہترین ہے۔ “(سنن أبي داود، الطہارة، حدیث: 354) امام ترمذی ؒ اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں کہ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے اہل علم کا اس پر عمل ہے۔ انہوں نے جمعہ کے دن غسل کو پسند تو کیا ہے لیکن اس رائے کا اظہار بھی کیا ہے کہ جمعہ کے دن وضو، غسل سے کفایت کر جاتا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 497) آغاز میں جمعہ کے دن وجوب غسل کا سبب یہ تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مشکل حالات کی بنا پر موسم گرما میں بھی ادنیٰ لباس پہنے ہوتے تھے۔ انہی کپڑوں میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ جب وہ مسجد میں آتے تو ان کے پسینے کی بو پھیل جاتی جس سے نمازی اور فرشتے سخت تکلیف محسوس کرتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ تم اس دن غسل کر لیا کرو۔ ایسے حالات میں ان علماء کے نزدیک اب بھی غسل کرنا واقعی ضروری ہے لیکن عام حالات میں ان کے نزدیک غسل جمعہ سنت مؤکدہ اور مستحب ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 878
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:919
919. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا، جبکہ آپ منبر پر خطبہ دے رہے تھے: ”جو شخص جمعہ کے لیے آئے وہ غسل ضرور کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:919]
حدیث حاشیہ: (1) یہ روایت جمعہ کے دن غسل کے بیان میں گزر چکی ہے۔ (2) اس مقام پر امام بخارى ؒ کا مقصود صرف منبر پر خطبے کا اثبات کرنا ہے۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ منبر پر حاضرین کو احکام دین کی تعلیم دینی چاہیے۔ (فتح الباري: 515/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 919