ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت سورۃ الجمعہ نازل ہوئی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، آپ نے اس کی تلاوت فرمائی، جب «وآخرين منهم لما يلحقوا بهم» پر پہنچے تو آپ سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں جو ابھی ہم سے ملے نہیں ہیں تو آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، وہ کہتے ہیں: اور سلمان فارسی ہم میں موجود تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان کے اوپر رکھا اور فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایمان ثریا پر بھی ہو گا تو بھی اس کے کچھ لوگ اسے حاصل کر لیں گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور یہ متعدد سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3933]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الجمعة 1 (4897)، 4898)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 59 (2526) (تحفة الأشراف: 12917)، و مسند احمد (2/297، 420، 469) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سلمان فارسی رضی الله عنہ عجمی (ملک ایران کے) تھے اور اس آیت میں انہیں لوگوں کی طرف اشارہ ہے، عجم میں بےشمار محدثین اور عظیم امامان اسلام پیدا ہوئے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3933
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: سلمان فارسی رضی اللہ عنہ عجمی (ملک ایران کے) تھے اوراس آیت میں انہیں لوگوں کی طرف اشارہ ہے، عجم میں بے شمارمحدثین اورعظیم امامانِ اسلام پیدا ہوئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3933
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3260
´سورۃ محمد سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن یہ آیت «وإن تتولوا يستبدل قوما غيركم ثم لا يكونوا أمثالكم»”اے عرب کے لوگو! تم (ایمان و جہاد سے) پھر جاؤ گے تو تمہارے بدلے اللہ دوسری قوم کو لا کر کھڑا کرے گا، وہ تمہارے جیسے نہیں (بلکہ تم سے اچھے) ہوں گے“(محمد: ۳۸)، تلاوت فرمائی، صحابہ نے کہا: ہمارے بدلے کون لوگ لائے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان کے کندھے پر ہاتھ مارا (رکھا) پھر فرمایا: ”یہ اور اس کی قوم، یہ اور اس کی قوم۔“[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3260]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے عرب کے لوگو! تم (ایمان وجہاد سے) پھر جاؤ گے تو تمہارے بدلے اللہ دوسری قوم کو لا کرکھڑا کرے گا، وہ تمہارے جیسے نہیں (بلکہ تم سے اچھے) ہوں گے (محمد: 38)
نوٹ: (سند میں ایک راوی مبہم ہے، لیکن آنے والی حدیث کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3260
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3261
´سورۃ محمد سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ نے کیا ہے کہ اگر ہم پلٹ جائیں گے تو وہ ہماری جگہ لے آئے جائیں گے، اور وہ ہم جیسے نہ ہوں گے، سلمان رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان رضی الله عنہ کی ران پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: ”یہ اور ان کے اصحاب، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ایمان ثریا ۱؎ کے ساتھ بھی معلق ہو گا تو بھی فارس کے کچھ لوگ اسے پا لیں گے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3261]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ثریا سات ستارے ہیں جو سب ستاروں سے زیادہ بلندی پر ہیں، اور آپﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایمان (یا دین، یا علم جیساکہ دیگر روایات میں ہے اور سب کاحاصل مطلب ایک ہی ہے) ثریا پر بھی چلا جائے تو بھی سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے قوم کے کچھ لوگ وہاں بھی جا کرحاصل کر لیں گے، اور یہ پیشین گوئی اس طرح ہو گئی کہ اہل فارس میں سینکڑوں علماءِ اسلام پیدا ہوئے اوربقول امام احمد بن حنبل: اگر اس سے محدثین نہیں مراد ہوں تو میں نہیں سمجھتا کہ تب پھر کون مراد ہوں گے، رحمہم اللہ جمیعا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3261
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3310
´سورۃ الجمعہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت سورۃ الجمعہ نازل ہوئی اس وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ نے اس کی تلاوت کی، جب آپ «وآخرين منهم لما يلحقوا بهم»”اور اللہ نے اس نبی کو ان میں سے ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی بھیجا ہے جو اب تک ان سے ملے نہیں ہیں“(الجمعۃ: ۳)، پر پہنچے تو ایک شخص نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں جو اب تک ہم سے نہیں ملے ہیں؟ (آپ خاموش رہے) اس سے کوئی بات نہ کی، سلمان (فارسی) رضی الله عنہ ہمارے درمیان موجود تھے، آپ نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھ کر فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3310]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اور اللہ نے اس نبی کو ان میں سے ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی بھیجا ہے جو اب تک ان سے ملے نہیں ہیں (الجمعة: 3) 2؎: سورہ ”محمد“ کی آیت ﴿وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ﴾(محمد: 38) کی تفسیرمیں بھی یہی حدیث (رقم: 3260) مؤلف لائے ہیں۔
حافظ ابن حجرکہتے ہیں: ”دونوں آیات کے نزول پر آپﷺنے ایسا فرمایا ہو، ایسا بالکل ممکن ہے“۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3310
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4897
4897. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: سورہ جمعہ نازل ہوئی تو ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے یہ آیت پڑھی: ”اور انہی میں سے کچھ دوسرے لوگ ہیں جو ابھی تک ان سے نہیں ملے۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس آیت کا مصداق کون لوگ ہیں؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے تین مرتبہ یہی سوال کیا، اس وقت ہم لوگوں میں حضرت سلمان فارسی ؓ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک ان پر رکھ کر فرمایا: ”اگر ایمان ثریا ستارے کی بلندی پر بھی ہوتا تو (ان میں سے) کئی لوگ وہاں تک پہنچ جاتے اور ایمان کو وہاں سے حاصل کرتے یا (فرمایا:) ان میں سے ایک آدمی وہاں تک پہنچ جاتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4897]
حدیث حاشیہ: دوسری روایت کئی آدمی سے بغیر شک کے مذکور ہے۔ قرطبی نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔ بہت سے حدیث کے حافظ اور امام ملک فارس میں پیدا ہوئے۔ میں کہتا ہوں ان لوگوں سے صرف حضرت امام بخاری اور امام مسلم اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ ہیں۔ یہ سب حدیث کے امام ملک فارس کے تھے اور رجل من ھٰولاء کی اگر روایت صحیح ہو تو اس سے حضرت امام بخاری مراد ہیں علم حدیث باسناد صحیح متصلہ اسی مرد کی ہمت مردانہ سے اب تک باقی ہے اور حنفیوں نے جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اس سے لیا ہے تو ہم کو حضرت امام ابو حنیفہ کی فضیلت اور بزرگی میں اختلاف نہیں ہے مگر ان کی اصل ملک فارس سے نہ تھی بلکہ کابل سے تھی اور کابل بلاد فارس میں داخل نہیں، اس لئے وہ اس حدیث کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ علاوہ اس کے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مدت العمر فقہ اور اجتہاد میں مصروف رہے اور علم حدیث کی طرف ان کی توجہ بالکل کم رہی، اسی لئے وہ حدیث کے امام نہیں گنے جاتے اور نہ ائمہ حدیث جیسے امام بخاری وامام مسلم وغیرہ نے اپنی کتابوں میں ان سے روایت کی ہے بلکہ محمد بن نصر مروزی محدث کہتے ہیں حضرت امام ابو حنیفہ کی بضاعت حدیث میں بہت تھوڑی تھی اور خطیب نے کہا کہ امام ابو حنیفہ نے صرف پچاس مرفوع حدیثیں روایت کی ہیں، البتہ مجتہد امام مالک اورامام احمد بن حنبل اوراسحاق بن راہویہ اور اوزاعی اور سفیان ثوری اور حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہم ایسے کامل گزرے ہیں کہ فقہ اور حدیث میں بیک وقت امام تھے اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو اور ان کو درجات عالیہ عطا فرمائے۔ آمین (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4897