الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
55. باب مَنَاقِبِ الْبَرَاءِ بْنِ مَالِكٍ رضى الله عنه
55. باب: براء بن مالک رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3854
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَمْ مِنْ أَشْعَثَ أَغْبَرَ ذِي طِمْرَيْنِ لَا يُؤْبَهُ لَهُ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ مِنْهُمْ الْبَرَاءُ بْنُ مَالِكٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتنے پراگندہ بال غبار آلود اور پرانے کپڑے والے ہیں کہ جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو سچی کر دے ۱؎، انہیں میں سے براء بن مالک ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3854]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 275، و1101)، و مسند احمد (3/145) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ ان کے اللہ تعالیٰ کے نہایت محبوب ہونے کی دلیل ہے، اور یہ محبوبیت یونہی حاصل ہو جاتی، بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی اور احکامات کی صدق دل اور فدائیت کے ساتھ بجا آوری کرتے ہیں، اس لیے ان کو یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے، اور ان میں براء بن مالک بھی تھے، رضی الله عنہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6239) ، تخريج المشكلة (125)

   صحيح البخاريلو أقسم على الله لأبره
   صحيح البخاريلو أقسم على الله لأبره
   صحيح البخاريلو أقسم على الله لأبره
   جامع الترمذيلو أقسم على الله لأبره منهم البراء بن مالك
   سنن أبي داودلو أقسم على الله لأبره
   سنن النسائى الصغرىلو أقسم على الله لأبره
   سنن النسائى الصغرىلو أقسم على الله لأبره
   سنن النسائى الصغرىلو أقسم على الله لأبره
   سنن ابن ماجهلو أقسم على الله لأبرة
   بلوغ المرامإن من عباد الله من لو اقسم على الله لابره

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3854 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3854  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ ان کے اللہ تعالیٰ کے نہایت محبوب ہونے کی دلیل ہے،
اور یہ محبوبیت یونہی حاصل ہو جاتی،
بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی اوراحکامات کی صدق دل اور فدائیت کے ساتھ بجا آوری کرتے ہیں،
اس لیے ان کو یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے،
اور ان میں براء بن مالک بھی تھے،
رضی اللہ عنہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3854   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1003  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دئیے۔ ربیع کے رشتہ داروں نے اس سے معافی طلب کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے دیت دینے کی پیش کش کی۔ اسے بھی انہوں نے رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آئے اور قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے سوا کسی بھی چیز کو لینے سے انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ سن کر سیدنا انس بن نضر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ نہیں، اس ذات اقدس کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس! اللہ کا نوشتہ تو قصاص ہی ہے۔ اتنے میں وہ لوگ اس پر رضامند ہو گئے اور پھر معافی دے دی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1003»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الصلح، باب الصلح في الدية، حديث:2703، ومسلم، القسامة، باب إثبات القصاص في الأسنان وما في معناها، حديث:1675.»
تشریح:
اس حدیث سے حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی فضیلت معلوم ہوئی کہ انھوں نے جو قسم کھائی‘ اللہ نے اسے پورا فرما دیا۔
انھوں نے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسے کی بنا پر قسم کھائی تھی جسے اللہ نے پورا کر دیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تردید اور اعراض مقصود نہ تھا۔
ایسا ہوتا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ ارشاد نبوی کے نافرمان شمار ہوتے جو کہ ایک صحابی کی شان کے ہر گز لائق نہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی تعریف فرمانا ان کی فضیلت و منقبت کا کھلا ثبوت ہے۔
راویٔ حدیث:
«‏‏‏‏حضرت رُبَیِّع بنت نضر رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ را پر ضمہ‘ با پر فتحہ اور یا کے نیچے کسرہ اور تشدید ہے۔
یہ نضر بن ضمضم بن زید بن حرام کی بیٹی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اور حارثہ بن سراقہ‘ جو غزوۂ بدر میں جام شہادت نوش فرما کر خلد بریں کے مکین بن گئے ‘ کی والدہ تھیں۔
«حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ حضرت رُبَیِّع کے بھائی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا تھے۔
یہ غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔
اس کا انھیں بڑا افسوس تھا۔
جنگ احد کے روز مسلمانوں کے رویے پر اللہ تعالیٰ سے معذرت کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے مشرکین کی صف کی جانب بڑھے کہ میں تو اُحد کے ورے جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔
اس کے بعد خوب لڑے اور شہید ہو گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1003   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4759  
´دانت کے قصاص کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ربیع کی بہن ام حارثہ رضی اللہ عنہا ۱؎ نے ایک شخص کو زخمی کر دیا، وہ لوگ مقدمہ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قصاص ہو گا قصاص، ام ربیع رضی اللہ عنہا بولیں: اللہ کے رسول! کیا فلاں عورت سے قصاص لیا جائے گا؟ نہیں، اللہ کی قسم! اس سے کبھی بھی قصاص نہ لیا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی ذات پاک ہے، ام ربیع! قصاص تو اللہ کی کتاب کا حکم ہے، وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4759]
اردو حاشہ:
(1) اگر کوئی کسی کا دانت توڑ دے تو اس میں قصاص واجب ہے، یعنی دانت کے بدلے توڑنے والے کا بھی وہی دانت توڑ دیا جائے گا الا یہ کہ ان کی باہمی رضا مندی ہو جائے، معافی مل جائے یا قصاص نہ لیا جائے اور دیت قبول کر لی جائے۔
(2) اس حدیث کی رو سے قصاص میں معافی کی سفارش کرنا مستحب ہے، البتہ یہ مسئلہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ قصاص یا دیت لینے کا اختیار مستحق اور مظلوم ہی کو ہے، چاہے وہ قصاص پر راضی ہو یا دیت لینے پر۔ اسے نہ تو دیت لینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا دباؤ ہی ڈالا جا سکتا ہے۔
(3) قصاص وحدود کے احکام عورتوں پر بھی لاگو ہوں گے۔
(4) اس حدیث مبارکہ سے اولیاء اللہ کی کرامات کا بھی اثبات ہوتا ہے۔
(5) قصاص نہیں لیا جائے گا۔ یہ انکار نہیں کیونکہ ان مخلص مومنین کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان اور کتاب اللہ کے حکم کا انکار کریں گے بلکہ یہ ان کے یقین کا اظہار ہے کہ ان شاء اللہ مصالحت کے حالات پیدا ہوجائیں گے اور قصاص کی نوبت نہیں آئے گی۔ اور فی الواقع ایسا ہی ہوا۔
(6) سچا کر دیتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ومکرم ہوتے ہیں اور ان کی قسم بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسا اور توکل کا نتیجہ ہوتی ہے، نہ کہ تکبر وانکار کا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4759   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4760  
´دانت کے قصاص کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ ان کی پھوپھی نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ کیا، ان کے بھائی انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا فلاں کا دانت توڑا جائے گا؟ نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، فلاں کے دانت نہیں توڑے جائیں گے، اور وہ لوگ اس سے پہلے اس کے گھر والوں سے معافی اور دیت کی بات کر چکے تھے، پھر جب ان کے بھائی نے قسم کھائی (وہ انس رضی اللہ عنہ کے چچا تھے، جو احد کے دن شہید ہوئے) تو وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4760]
اردو حاشہ:
یہ روایت سابقہ روایت سے مختلف ہے۔ اس میں ہے کہ دانت توڑنے والی عورت، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پھوپھی اور حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہن، حضرت ربیع رضی اللہ عنہا خود ہیں جبکہ سابقہ روایت میں ان (ربیع) کی بہن ام حارثہ کو زخمی کرنے والی کہا گیا ہے۔ دوسرا اختلاف یہ ہے کہ اس روایت کے مطابق قسم کھانے والی ام ربیع کو کہا گیا ہے۔ ظاہراً ان دونوں حدیثوں میں تضاد ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے پورے وثوق سے کہا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، تاہم ایک ہی عورت سے سرزد ہوئے ہیں، یعنی ایک دفعہ انھوں نے کسی کو زخمی کیا تو قسم ان کی والدہ نے اٹھائی اور جب دانت توڑے تو قسم کھانے والے ان کے بھائی تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ ایک ربیع کا اور دوسرا ان کی بہن کا۔ ربیع نے کسی کا دانت توڑا تو قسم ان کے بھائی نے کھائی اور ان کی بہن ام حارثہ نے کسی انسان کو زخمی کیا تو اس وقت قسم کھانے والی ان کی والدہ تھیں۔ امام نووی رحمہ اللہ کی تطبیق ہی راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ احادیث کے ظاہر الفاظ کے قریب تر ہے۔ واللہ أعلم! مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي: للأتبوبي: 36/ 60)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4760   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4595  
´دانت کے قصاص کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی بہن ربیع نے ایک عورت کا سامنے کا دانت توڑ دیا، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے اللہ کی کتاب کے مطابق قصاص کا فیصلہ کیا، تو انس بن نضر نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اس کا دانت تو آج نہیں توڑا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انس! کتاب اللہ میں قصاص کا حکم ہے پھر وہ لوگ دیت پر راضی ہو گئے جسے انہوں نے لے لیا، اس پر اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب ہوا اور آپ نے فرمایا: اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4595]
فوائد ومسائل:
1: حضرت انس نضر رضی اللہ عنہ کا انکار رسول ؐ پر رد یا شریعت کا انکار نہ تھا۔
بلکہ یہ اس طبعی عار اور اذیت کا اظہار تھا جو دانت توڑے جانے کی صورت میں ایک خاتون اور اس کے قبیلے کو لاحق ہونے والی تھی اور ان کا مقصود یہ تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اوجل نکالا جائے۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے ایک انسان روزہ رکھنے کا شائق ہے، مگر اس کے نتیجے میں بھوک پیاس سے اذیت محسوس کرتا ہے تو اس طبعی اذیت کا اظہار کوئی معیوب نہیں۔

2: حضرت انس بن نضر اللہ کے محبوب بندے تھے کہ اللہ نے ان کی قسم پوری کردی۔

3: امام حنبل ؒ کا فتوی کہ دانت رگڑ دیا جائے، اسی وقت صحیح ہو گا جب دانت اوپر ٹوٹا ہو۔
(بذل المجهود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4595   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2649  
´دانت میں قصاص کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا نے ایک لڑکی کے سامنے کا دانت توڑ ڈالا، تو ربیع کے لوگوں نے معافی مانگی، لیکن لڑکی کی جانب کے لوگ معافی پر راضی نہیں ہوئے، پھر انہوں نے دیت کی پیش کش کی، تو انہوں نے دیت لینے سے بھی انکار کر دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دیا، تو انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ایسا نہیں ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انس! اللہ کی کتاب قصاص کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2649]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دانٹ توڑنے پر بھی فصاص کا قانون نافذ ہوتا ہے، یعنی مجرم کا دانٹ توڑ دیا جائے یا دیت لے لی جائے یا معاف کردیا جائے۔

(2)
ایک دانت توڑنے کی دیت پانچ اونٹ ہے۔

(3)
حضرت انس بن نضر ؓ نے فرمایا کہ ربیع رضی اللہ عنہا کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔
یہ رسول اللہﷺ کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار نہیں تھا بلکہ اللہ تعالی پر توکل اور اعتماد کا اظہار تھا کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی ان لوگوں کے دل پھیر دے گا اور وہ دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے یا معاف کردیں گے۔

(4)
کسی معزز شخصیت کے لیے قانون تبدیل نہیں ہوتا۔

(5)
اس واقعے میں حضرت انس بن نضر ؓ اوران کی ہمشیرہ کی عظمت اور رفعت مقام کا اظہار ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2649   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2703  
2703. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ حضرت ربیع ؓ جونضر کی دختر تھیں، انھوں نے کسی نوجوان لڑکی کا اگلا دانت توڑ دیا تو لڑکی کے ورثاء نے تاوان کا مطالبہ کردیا۔ ربیع کے خاندان نے معافی کی درخواست کی تو انھوں نے انکار کردیا اور وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے قصاص لینے کا حکم دیا۔ حضرت انس بن نضر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا ربیع کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے انس ؓ! کتاب اللہ کا فیصلہ تو قصاص ہی ہے۔ یہ سن کر دوسرے لوگ راضی ہوگئے اور انھوں نے قصاص معاف کردیا۔ تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں، اگر وہ اللہ پر یقین محکم رکھتے ہوئے قسم اٹھالیں توا للہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرمادیتا ہے۔ (راوی حدیث) فزاری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2703]
حدیث حاشیہ:
دیت پر صلح کرنا ثابت ہوا۔
حضرت انس بن نضر ؓ نے اللہ کی قسم اس امید پر کھائی کہ وہ ضرور ضرور فریق ثانی کے دل موڑدے گا اور وہ قصاص کے بدلہ دیت پر راضی ہوجائیں گے۔
چنانچہ اللہ نے ان کی قسم کو پورا کردیا اور فریق ثانی دیت لینے پر راضی ہوگیا، جس پر آنحضرت ﷺ نے کچھ مقبولان بارگاہ الٰہی کی نشا ندہی فرمائی کہ وہ ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ پاک سے متعلق اپنے دلوں میں کوئی سچا عزم کرلیں اور اس کو پورے بھروسے پر درمیان میں لے آئیں تو ضرور ضرور ان کا عزم پورا کردیتا ہے اور وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
انبیاء ؑ اور اولیائے کاملین میں ایسی بہت سی مثالیں تاریخ عالم کے صفحات پر موجود ہیں اور قدرت کا یہ قانون اب بھی جاری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2703   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4611  
4611. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ان کی پھوپھی حضرت ربیع بنت نضر‬ ؓ ن‬ے انصار کی ایک لڑکی کا سامنے والا دانت توڑ دیا۔ لڑکی والوں نے قصاص کا مطالبہ کیا اور اس غرض سے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی ﷺ نے بھی قصاص کا حکم دیا تو حضرت انس بن مالک کے چچا حضرت انس بن نضر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں، اللہ کی قسم! اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے انس! اللہ کی کتاب میں قصاص ہی ہے۔ اس دوران میں لڑکی والے معافی پر راضی ہو گئے اور انہوں نے دیت قبول کر لی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالٰی ان کی قسم کو ضرور سچا کر دیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4611]
حدیث حاشیہ:
یہی لوگ ہیں جن کو قرآن مجید نے لفظ اولیاءاللہ سے تعبیر کیا ہے۔
جن کو لا خوف کی بشارت دی گئی ہے۔
جعلنا اللہ منھم۔
حدیث قدسی أنَا عندَ ظنِ عبدِي بی سے بھی اس حدیث کی تائید ہوتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4611   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4500  
4500. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی حضرت ربیع‬ ؓ ن‬ے ایک لڑکی کے دانت توڑ دیے۔ پھر کچھ لوگوں نے لڑکی سے معافی کی درخواست کی لیکن اس کے ورثاء معافی کے لیے تیار نہ ہوئے۔ پھر انہوں نے دیت کی پیش کش کی تو لڑکی کے ورثاء نے دیت لینے سے انکار کر دیا۔ پھر وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بایں حالت پیش ہوئے کہ قصاص کے علاوہ کسی اور چیز پر راضی نہ تھے، چنانچہ آپ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر حضرت انس بن نضر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ربیع ؓا کے دانت توڑ دیے جائیں گے؟ ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! اس کے دانت نہیں توڑے جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیکھو انس! کتاب اللہ میں تو قصاص ہی ہے۔ پھر وہ لوگ راضی ہو گئے اور انہوں نے معاف کر دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4500]
حدیث حاشیہ:
جیسے انس بن نضر ؓ نے قسم کھا لی تھی کہ ربیع کا دانت کبھی نہیں توڑا جائے گا۔
بظا ہر اس کی امید نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے لڑکی کے وارثوں کا دل اس نے ایک دم پھیر دیا۔
انہوں نے قصاص معاف کردیا۔
اللہ والے ایسے ہی ہوتے ہیں، ان کا عزم صمیم اور توکل علی اللہ وہ کام کرجاتاہے کہ دنیا دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4500   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4500  
4500. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی حضرت ربیع‬ ؓ ن‬ے ایک لڑکی کے دانت توڑ دیے۔ پھر کچھ لوگوں نے لڑکی سے معافی کی درخواست کی لیکن اس کے ورثاء معافی کے لیے تیار نہ ہوئے۔ پھر انہوں نے دیت کی پیش کش کی تو لڑکی کے ورثاء نے دیت لینے سے انکار کر دیا۔ پھر وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بایں حالت پیش ہوئے کہ قصاص کے علاوہ کسی اور چیز پر راضی نہ تھے، چنانچہ آپ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر حضرت انس بن نضر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ربیع ؓا کے دانت توڑ دیے جائیں گے؟ ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! اس کے دانت نہیں توڑے جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیکھو انس! کتاب اللہ میں تو قصاص ہی ہے۔ پھر وہ لوگ راضی ہو گئے اور انہوں نے معاف کر دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4500]
حدیث حاشیہ:

حضرت انس بن نضر ؓ نے جو کہا کہ ربیع ؓ کے دانت نہیں توڑے جائیں گے، یہ انکار کے طور پر نہیں تھا کیونکہ ایسا کرنا تو صریح کفر ہے بلکہ انھوں نے خبر دی تھی کہ اللہ کے فضل وکرم سے ربیع کے دانت کبھی نہیں توڑے جائیں گے بلکہ وہ معافی یا تاوان پر راضی ہوجائیں گے۔
اگرچہ بظاہر اس کی اُمید نہ تھی لیکن اللہ کی قدرت دیکھئے کہ لڑکی کے ورثاء کے دل یکدم موم ہوگئے اور وہ قصاص سے دستبردار ہوگئے اور انھوں نے ربیع کو معاف کردیا۔

واقعی اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ان کا اللہ پر توکل اور عزم صمیم وہ کام کرجاتا ہے کہ اہل دنیا دیکھ کرحیران رہ جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص معاف کردینے اوردیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کردیتا ہے تو وہ پہلے قاتل سے بڑا مجرم ہے۔
ایسے انسان کا قتل کرنا واجب ہے۔
اس کا معاملہ ورثاء کے حوالے نہیں کیا جائے گا، البتہ مندرجہ ذیل صورتیں قانون قصاص سے مستثنیٰ ہیں:
الف۔
مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گاب۔
مسلمان کو کسی ذمی کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
ج۔
والدین کو اولاد کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4500   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4611  
4611. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ان کی پھوپھی حضرت ربیع بنت نضر‬ ؓ ن‬ے انصار کی ایک لڑکی کا سامنے والا دانت توڑ دیا۔ لڑکی والوں نے قصاص کا مطالبہ کیا اور اس غرض سے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی ﷺ نے بھی قصاص کا حکم دیا تو حضرت انس بن مالک کے چچا حضرت انس بن نضر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں، اللہ کی قسم! اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے انس! اللہ کی کتاب میں قصاص ہی ہے۔ اس دوران میں لڑکی والے معافی پر راضی ہو گئے اور انہوں نے دیت قبول کر لی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالٰی ان کی قسم کو ضرور سچا کر دیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4611]
حدیث حاشیہ:

أرشَ دراصل یہ ہوتا ہے کہ کوئی خریدار جب خریدی ہوئی چیز کے عیب پر مطلع ہو تو بقدر نقصان کچھ رقم فروخت کرنے والے سے لے لیتا ہے زخموں اور جنایات کی أرش بھی اسی طرح ہے کہ وہ بھی پیدا شدہ نقصان کو پورا کرتی ہےچنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اگر کسی کو معافی دے دی جائے تو معروف طریقے کے مطابق اس کی اتباع کی جائے اور اچھے انداز سے رقم کی ادائیگی کر دی جائے۔
'' (البقرة: 178/2)

واضح رہے کہ معافی کی دو قسمیں ہیں:
ایک یہ ہے کہ قصاص اور دیت دونوں معاف کر دیے جائیں اور دوسری یہ ہےکہ قصاص معاف کردیا جائے۔
اس صورت میں دیت ادا کرنی ہو گی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4611