´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دئیے۔ ربیع کے رشتہ داروں نے اس سے معافی طلب کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے دیت دینے کی پیش کش کی۔ اسے بھی انہوں نے رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آئے اور قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے سوا کسی بھی چیز کو لینے سے انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ سن کر سیدنا انس بن نضر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ نہیں، اس ذات اقدس کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اے انس! اللہ کا نوشتہ تو قصاص ہی ہے۔ اتنے میں وہ لوگ اس پر رضامند ہو گئے اور پھر معافی دے دی۔“ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔“ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1003»
تخریج: «أخرجه البخاري، الصلح، باب الصلح في الدية، حديث:2703، ومسلم، القسامة، باب إثبات القصاص في الأسنان وما في معناها، حديث:1675.»
تشریح:
اس حدیث سے حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی فضیلت معلوم ہوئی کہ انھوں نے جو قسم کھائی‘ اللہ نے اسے پورا فرما دیا۔
انھوں نے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسے کی بنا پر قسم کھائی تھی جسے اللہ نے پورا کر دیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تردید اور اعراض مقصود نہ تھا۔
ایسا ہوتا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ ارشاد نبوی کے نافرمان شمار ہوتے جو کہ ایک صحابی کی شان کے ہر گز لائق نہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی تعریف فرمانا ان کی فضیلت و منقبت کا کھلا ثبوت ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت رُبَیِّع بنت نضر رضی اللہ عنہا»
”را
“ پر ضمہ‘
”با
“پر فتحہ اور
”یا
“ کے نیچے کسرہ اور تشدید ہے۔
یہ نضر بن ضمضم بن زید بن حرام کی بیٹی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اور حارثہ بن سراقہ‘ جو غزوۂ بدر میں جام شہادت نوش فرما کر خلد بریں کے مکین بن گئے ‘ کی والدہ تھیں۔
«حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ» یہ حضرت رُبَیِّع کے بھائی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا تھے۔
یہ غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔
اس کا انھیں بڑا افسوس تھا۔
جنگ احد کے روز مسلمانوں کے رویے پر اللہ تعالیٰ سے معذرت کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے مشرکین کی صف کی جانب بڑھے کہ میں تو اُحد کے ورے جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔
اس کے بعد خوب لڑے اور شہید ہو گئے۔