الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3729
´پانی کے برتن میں پھونک مارنا اور سانس لینا منع ہے۔`
عبداللہ بن بسر جو بنی سلیم سے تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس قیام کیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا، پھر انہوں نے حیس ۱؎ کا ذکر کیا جسے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے پھر وہ آپ کے پاس پانی لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا پھر جو آپ کے داہنے تھا اسے دیدیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوریں کھائیں اور ان کی گٹھلیاں درمیانی اور شہادت والی انگلیوں کی پشت پر رکھ کر پھینکنے لگے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میرے والد بھی کھڑے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3729]
فوائد ومسائل:
1۔
اس حدیث سے واضح ہوا کہ نبی کریم ﷺنے کھائی ہوئی کھجوروں کی گھٹلیاں اسی برتن میں نہیں ڈالیں۔
بلکہ علیحدہ رکھیں کیونکہ نفیس طبایع پر بات بہت ناگوار گزرتی ہے۔
تو اس طرح پانی کے برتن میں سانس لینا بھی دوسروں کوبُرا لگتا ہے۔
2۔
مشروب پینے کے بعد آپ نے دایئں طرف والے کو یا۔
3۔
اصحاب فضل والے کی تکریم کرنا جس طرح میزبان نے رسول اللہ ﷺ کی تکریم کی پسندیدہ بات ہے۔
4۔
میزبان اپنے مہمان سے دعا کی درخواست کرسکتا ہے۔
5۔
کھانے کے بعد دعا کرنا سنت ہے۔
اور جو دعا رسول اللہ ﷺنے فرمائی وہی دعا کرنا افضل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3729