الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
84. باب مِنْهُ
84. باب: سابقہ باب سے متعلق کا ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 3511
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَقُلْ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ سورة البقرة آية 156 اللَّهُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي فَأْجُرْنِي فِيهَا وَأَبْدِلْنِي مِنْهَا خَيْرًا "، فَلَمَّا احْتُضِرَ أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: اللَّهُمَّ اخْلُفْ فِي أَهْلِي خَيْرًا مِنِّي، فَلَمَّا قُبِضَ، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ سورة البقرة آية 156 عِنْدَ اللَّهِ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي فَأْجُرْنِي فِيهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو سَلَمَةَ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْأَسَدِ.
ابوسلمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت لاحق ہو تو اسے: «إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم عندك احتسبت مصيبتي فأجرني فيها وأبدلني منها خيرا» ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور ہم اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ! میں اپنی مصیبتوں کا اجر تجھ سے چاہتا ہوں مجھے تو ان پر (صبر کرنے کا) اچھا اجر دے، اور ان مصیبتوں کے بدلے مجھے ان سے اچھا دے، پڑھنا چاہیئے، پھر جب ابوسلمہ رضی الله عنہ کی موت کا وقت آ گیا تو انہوں نے دعا کی: «اللهم اخلف في أهلي خيرا مني» اے اللہ! میرے گھر والوں میں مجھ سے بہتر ذات کو میرا خلیفہ و جانشیں بنا دے، اور جب ان کی موت واقع ہو گئی تو ام سلمہ رضی الله عنہا نے کہا: «إنا لله وإنا إليه راجعون عند الله احتسبت مصيبتي فأجرني فيها» ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ام سلمہ رضی الله عنہا کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے
۳- اور ابوسلمہ رضی الله عنہ کا نام عبداللہ بن عبدالاسد ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3511]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 55 (1598) (تحفة الأشراف: 6577) (ضعیف) (تراجع الالبانی 341)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد - أم سلمة نحوه

   جامع الترمذيإذا أصاب أحدكم مصيبة فليقل إنا لله وإنا إليه راجعون
   سنن ابن ماجهما من مسلم يصاب بمصيبة فيفزع إلى ما أمر الله به من قوله إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم عندك احتسبت مصيبتي فأجرني فيها وعضني منها إلا آجره الله عليها وعاضه خيرا منها

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3511 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3511  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور ہم اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں،
اے اللہ! میں اپنی مصیبتوں کا اجر آپ سے چاہتا ہوں مجھے تو ان پر (صبر کرنے کا) اچھا اجر دے،
اور ان مصیبتوں کے بدلے مجھے ان سے اچھا دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3511   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1598  
´مصیبت پر صبر کرنے کا ثواب۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس مسلمان کو کوئی مصیبت پیش آئے، تو وہ گھبرا کر اللہ کے فرمان کے مطابق یہ دعا پڑھے: «إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم عندك احتسبت مصيبتي فأجرني فيها وعضني منها» ہم اللہ ہی کی ملک ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ! میں نے تجھی سے اپنی مصیبت کا ثواب طلب کیا، تو مجھے اس میں اجر دے، اور مجھے اس کا بدلہ دے جب یہ دعا پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کا اجر دے گا، اور اس سے بہتر اس کا بدلہ عنایت کرے گا۔‏‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1598]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مصیبت پر صبر کا ثواب آخرت میں بھی ملتا ہے۔
اور دنیا میں بھی صبر کی وجہ سے اللہ کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔

(2)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے جس حکم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اس سے مراد قرآن مجید میں اللہ کا یہ فرمان ہے۔
﴿وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ ﴿155﴾ ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوٓا۟ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ ﴿156﴾ أُو۟لَـٰٓئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَٰتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُهْتَدُونَ﴾  (البقرة: 155۔ 157)
اور ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجئے۔
جنھیں جب کوئی مصیبت آتی ہے۔
تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں۔
اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

(3)
اس سے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے ایمان کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔
کہ بظاہر اس دعا کی قبولیت کا امکان نہیں تھا۔
لیکن پھر بھی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمان نبوی ﷺ کی تعمیل کرتے ہوئے دعا کی اور ارشاد نبوی کو حق سچ جانا۔

(4)
جو لوگ اللہ کے وعدوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
اللہ ان کی حاجتیں پوری فرماتا ہے۔
اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1598