عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں (صحابہ کو) یہ دعا سکھایا کرتے تھے جیسا کہ انہیں قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات»”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں حیات و موت کے فتنے (کشمکش) سے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3494]
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3494
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں حیات وموت کے فتنے (کشمکش) سے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3494
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 439
´عذاب قبر برحق ہے` «. . . عن عبد الله بن عباس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم هذا الدعاء كما يعلمهم السورة من القرآن. يقول: ”اللهم إني اعوذ بك من عذاب جهنم، واعوذ بك من عذاب القبر . . .» ”. . . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یہ دعا اس طرح سکھاتے تھے جیسے قرآن کی سورت سکھاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”اے میرے اللہ! میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 439]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 590، من حديث ما لك به ورواه عبدالله بن طاوس عن أبيه مختصراً]
تفقه ➊ عذاب قبر برحق ہے۔ اس پر اہل سنت کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے لہٰذا اس پر ایمان لانا لازم اور یہی عقیدہ رکھنا صحیح ہے۔ نیز دیکھئے: [التهميد 186/12] ➋ قیامت سے پہلے ایک کانے آدمی دجال اکبر کا ظہور ہو گا۔ اللہ میں اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ ➌ زندگی میں اہل و مال اور دین و دنیا کے بہت سے فتنے ہیں اور موت کے فتنے سے مراد موت کے وقت کا فتنه، عذاب قبر اور عذاب قیامت ہے۔ ➍ بعض علماء کے نزدیک درج بالا دعا نماز میں پڑھنا واجب یعنی فرض ہے لیکن راجح یہی ہے کہ یہ دعا فرض و واجب نہیں بلکہ سنت ہے جیسا کہ حدیث «ثم يتخير من الدعاء أعجبه إليه فيدعو۔» سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 835، وصحيح مسلم 402] ➎ دعائیں اور اذکار و اورادو سکھانے کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ یہ مومن کا ہتھیار ہیں۔ ➏ حدیث شرعی حجت ہے اور اس کی حفاظت اللہ کے ذمے ہے۔ ➐ نیز دیکھئے: [الموطأ ح 207، البخاري 1379، ومسلم 2866]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 110
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1542
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یہ دعا اسی طرح سکھاتے جس طرح قرآن کی سورۃ سکھاتے تھے، فرماتے: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم وأعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات»”اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم کے عذاب سے، تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کی آزمایشوں سے۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1542]
1542. اردو حاشیہ: دعا کے الفاظ میں «أعوذ» کا تکرار ان امور کی دہشت واہمیت کے پیش نظر ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1542
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2065
´عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا انہیں اسی طرح سکھاتے تھے جیسے قرآن کی سورت سکھاتے تھے، آپ فرماتے کہو: «اللہم إنا نعوذ بك من عذاب جهنم وأعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات»”اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں جہنم کے عذاب سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں موت [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2065]
اردو حاشہ: ”دجال“ کو ”مسیح“ اس لیے کہا گیا کہ اسے یہودی اپنا مسیح قرار دیتے ہیں، نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور اس کے انتظار میں ہیں، حالانکہ اصلی مسیح تو عیسیٰ علیہ السلام ہیں جو کب کے آچکے اور قیامت کے قریب ان کا دوبارہ آسمان سے نزول ہوگا۔ گویا طنزاً دجال کو مسیح کہا گیا ہے۔ ایک وجہ دجال کا ممسوح العین ہونا بھی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2065
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3840
´جن چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ چاہی ہے ان کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے قرآن کی سورت سکھاتے اسی طرح یہ دعا بھی ہمیں سکھاتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم وأعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات»”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3840]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مسنون دعائیں کوشش اور اہتمام سے سیکھنا اور سکھانا ضروری ہیں۔
(2) قبر کا عذاب حق ہے۔ اس پر ایمان کرکھنا فرض ہے۔ اور ان تمام کاموں سے اجتناب ضروری ہے جو عذاب قبر کا باعث بنتے ہیں، مثلاً: ایک شخص کی بات دوسرے کو بتا کر ان میں لڑائی کرا دینا یا جسم اور لباس کو پیشاب کے چھینٹوں سے بچانے کے لیے مناسب احتیاط نہ کرنا، وغیرہ۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3840
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1333
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں اس دعا کی تعلیم اس طرح دیتے تھے، جس طرح قرآن مجید کی کسی سورت کی تعلیم دیتے تھے، ارشاد فرماتے تھے کہ کہو: ”اے اللہ! ہم جہنم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتے ہیں، میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے اور میں پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے۔“ صاحب کتاب مسلم بن حجاج رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے طاؤس سے یہ بات پہنچی ہے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1333]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ امام طاؤس نے تعوذ کے ترک کر دینے پر اپنے بیٹے کو نئے سرے سے نماز پڑھنے کا حکم دیا جس سے معلوم ہوتا ہے وہ اس حکم کو فرضیت کے معنی میں لیتے تھے ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی نظریہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول تعوذ نماز کے لیے ضروری ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ استحباب کے لیے ہے یعنی یہ کلمات نماز میں پڑھنے چاہئیں لیکن اس کے بغیر نماز ہوجاتی ہے۔ 2۔ بعض لوگ دفن کے بعد اذان دیتے ہیں تاکہ شیطان بھاگ جائے اور میت کو فرشتوں کے سوالات کے جواب مستحضر ہوں، علامہ سعیدی نے لکھا ہے اس کو تدفین کا ایک رکن قرار دینا باطل اور بدعت سئیہ ہے۔ (ج: 2 ص: 190) ظاہر بات ہے بدعت کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے کہ پہلے ایک کام اچھا سمجھ کر شروع کیا جاتا ہے اس کو ضروری اور لازم نہیں سمجھا جاتا، آہستہ آہستہ اس کو دین کا حصہ بنا لیا جاتا ہے اور جو وہ کام نہ کرے اس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔