عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو رخصت کرتے تو اس کا ہاتھ پکڑتے ۱؎ اور اس کا ہاتھ اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ وہ شخص خود ہی آپ کا ہاتھ نہ چھوڑ دیتا اور آپ کہتے: «استودع الله دينك وأمانتك وآخر عملك»”میں تیرا دین، تیری امانت، ایمان اور تیری زندگی کا آخری عمل (سب) اللہ کی سپردگی و حوالگی میں دیتا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث دوسری سند سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3442]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف، وانظر: سنن ابی داود/ الجھاد 80 (2600)، وسنن ابن ماجہ/الجھاد 24 (2826) (تحفة الأشراف: 7471) (صحیح) (سند میں ابراہیم بن عبد الرحمن بن یزید مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم 14، 16، 2485)»
وضاحت: ۱؎: اس سے رخصت کے وقت بھی مصافحہ ثابت ہوتا ہے، معلوم نہیں لوگوں نے کہاں سے مشہور کر رکھا ہے کہ رخصت کے وقت مصافحہ ثابت نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (16 - 2485) ، الكلم الطيب (169 - 122 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (3442) إسناده ضعيف إبراهيم بن عبدالرحمن بن يزيد : مجهول (تق: 208) وحديث أبى داود (2600) يغني عنه
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2826
´غازیوں کو الوداع کہنے (رخصت کرنے) کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو جانے والے کے لیے اس طرح دعا کرتے، «أستودع الله دينك وأمانتك وخواتيم عملك»”میں تیرے دین، تیری امانت، اور تیرے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2826]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ محققین کی تفصیلی بحث سے تصحیح حدیث والی رائے ہی أقرب إلے الصواب معلوم ہوتی ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثيه مسند الإمام أحمد: 121، 119/8) والصحيحة للألباني رقم: 16 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكور بشار عواد رقم: 2826)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2826