الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
142. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ
142. باب: ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 339
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ مُشْتَمِلًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَجَابِرٍ , وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ , وَأَنَسٍ , وَعَمْرِو بْنِ أَبِي أَسِيدٍ , وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَكَيْسَانَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَأُمِّ هَانِئٍ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ , وَطَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ , وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، وَغَيْرِهِمْ قَالُوا: لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُصَلِّي الرَّجُلُ فِي ثَوْبَيْنِ.
عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا، کہ آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمر بن ابی سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، جابر، سلمہ بن الاکوع، انس، عمرو بن ابی اسید، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، کیسان، ابن عباس، عائشہ، ام ہانی، عمار بن یاسر، طلق بن علی، اور عبادہ بن صامت انصاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین وغیرہم سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ آدمی دو کپڑوں میں نماز پڑھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 339]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة 4 (356)، صحیح مسلم/الصلاة 52 (517)، سنن ابی داود/ الصلاة 78 (628)، سنن النسائی/القبلة 14 (765)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 69 (1049)، (تحفة الأشراف: 10684)، وکذا (10682)، موطا امام مالک/الجماعة9 (29)، مسند احمد (4/26، 27) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: شیخین کی روایت میں «واضعاً طرفيه على عاتقيه» کا اضافہ ہے یعنی آپ اس کے دونوں کنارے اپنے دونوں کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے، اس سے ثابت ہوا کہ اگر ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھے تو دونوں کندھوں کو ضرور ڈھانکے رہے، ورنہ نماز نہیں ہو گی، اس بابت بعض واضح روایات مروی ہیں، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ نے اس وقت سر کو نہیں ڈھانکا تھا، ایک کپڑے میں سر کو ڈھانکا ہی نہیں جا سکتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1049)

   صحيح البخاريصلى في ثوب واحد قد خالف بين طرفيه
   صحيح البخارييصلي في ثوب واحد في بيت أم سلمة قد ألقى طرفيه على عاتقيه
   صحيح البخارييصلي في ثوب واحد مشتملا به في بيت أم سلمة واضعا طرفيه على عاتقيه
   صحيح مسلميصلي في بيت أم سلمة في ثوب قد خالف بين طرفيه
   صحيح مسلميصلي في ثوب واحد مشتملا به في بيت أم سلمة واضعا طرفيه على عاتقيه
   صحيح مسلميصلي في ثوب واحد ملتحفا مخالفا بين طرفيه
   جامع الترمذييصلي في بيت أم سلمة مشتملا في ثوب واحد
   سنن أبي داوديصلي في ثوب واحد ملتحفا مخالفا بين طرفيه على منكبيه
   سنن النسائى الصغرىيصلي في ثوب واحد في بيت أم سلمة واضعا طرفيه على عاتقيه
   سنن ابن ماجهيصلي في ثوب واحد متوشحا به واضعا طرفيه على عاتقيه
   مسندالحميديرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في بيت أم سلمة في ثوب واحد مشتملا به

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 339 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 339  
اردو حاشہ:
1؎:
شیخین کی روایت میں ((وَاضِعاً طَرَفَيْهِ عَلى عَاتِقَيْهِ)) کا اضافہ ہے یعنی آپ اس کے دونوں کنارے اپنے دونوں کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے،
اس سے ثابت ہوا کہ اگر ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھے تو دونوں کندھوں کو ضرور ڈھانکے رہے،
ورنہ نماز نہیں ہو گی،
اس بابت بعض واضح روایات مروی ہیں،
نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ نے اس وقت سر کو نہیں ڈھانکا تھا،
ایک کپڑے میں سر کو ڈھانکا ہی نہیں جاسکتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 339   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 765  
´ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک ایسے کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا جس کے دونوں کناروں کو آپ اپنے دونوں کندھوں پر رکھے ہوئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 765]
765 ۔ اردو حاشیہ:
➊ عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پہلے خاوند سے بیٹے تھے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پرورش پائی۔
➋ ایک کپڑے میں نماز مجبوری کی حالت میں پڑھی جائے۔ اگر وہ چھوٹا ہو تو اسے ناف سے گھٹنوں تک باندھ لیا جائے اور اگر کچھ بڑا ہو تو بغلوں کے نیچے سے گزار کر دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر ڈال لیں۔ اگر کھلنے کا اندیشہ ہو تو گردن کے پیچھے گرہ دیں لیں ورنہ کھلا چھوڑ لیں۔ اس طرح پیٹ اور کمر بھی چھپ جائیں گے۔ حدیث میں اسی طرح کا ذکر ہے اور اگر دو کپڑے ہوں تو پھر دو ہی میں نماز پڑھیں۔ ایک کو ازار اور دوسرے کو ردا یا قمیص بنائیں۔
➌ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے، ایسی صورت میں یقیناًً سرننگا رہتا ہے، اس لیے ننگے سر نماز کے ہو جانے میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب غربت و ناداری عام تھی جیسا کہ حدیث سے واضح ہے۔ اب آسانی کی حالت میں ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کو عادت بنا لینا، اسے کوئی بھی پسند نہیں کرے گا، نہ اس کے لیے جواز کا فتویٰ ہی ڈھونڈے گا۔ اسی طرح ننگے سر نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے کہ اس کے جواز میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن اسے عادت اور شعار بنا لینا قطعاً پسندیدہ نہیں، نہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابۂ کرام اور اسلافِ عظام کے طرزِ عمل ہی سے مطابقت رکھتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 765   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:581  
581-سیدنا عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک کپڑا اوڑھ کر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:581]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ سکتے ہیں بشرطیکہ ستر اور کندھے ڈھکے ہوئے ہوں نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے، ربیب بیٹے کو گھر میں رکھنا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 581   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1152  
حضرت عمر ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا، آپﷺ اسے لپیٹے ہوئے تھے، اور اس کے دونوں کنارے، آپﷺ کندھوں پر رکھے ہوئے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1152]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مُشْتَمِلٌ،
مُتَوَشِّحٌ اور (مخَالِفٌ بَيْنَ طَرَفَيْهِ)
تینوں ہم معنی ہیں،
جس کا مقصد یہ ہے کہ کپڑے کا جو کنارہ دائیں کندھے پر ڈالا ہے،
اس کو بائیں ہاتھ کے نیچے سے لے جائے اور جو کنارہ بائیں کندھے پر رکھنا ہے اس کو دائیں ہاتھ کے نیچے سے لے جائے،
پھر دونوں کناروں کو سینہ پر باندھ لے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1152   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:354  
354. حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھی جبکہ اس کے دونوں کناروں کو الٹ کر اپنے کندھوں پر ڈال لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:354]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؓ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ کی تین روایات ذکر کی ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ان کی حکمت بایں الفاظ ذکر کی ہے:
پہلی روایت کی سند عالی ہے، کیونکہ اس میں امام بخاری ؒ اورراوی حدیث حضرت عمر بن ابی سلمہؓ کے درمیان تین واسطے ہیں، اگرچہ علومطلق نہیں، بلکہ نسبی ہے، کیونکہ دوسری اور تیسری روایت کے مقابلے میں علو پایا جاتا ہے۔
تاہم سند گو عالی ہے لیکن اس میں ر اوی حدیث نے اپنے مشاہدے کی صراحت نہیں کی۔
اس کے علاوہ اس میں بصیغہ "عن" روایت کی گئی ہے۔
امام بخاری ؒ نے دوسری سافل سند ذکر کرکے راوی کے مشاہدے کی تصریح نقل کردی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے جو رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے وہ مشاہدے کے بعد کی ہے۔
لیکن اس روایت میں یہ سقم تھا کہ اگرچہ اس میں ہشام نے ا پنے باپ عروہ سے تصریح سماع کردی ہے۔
تاہم حضرت عروہ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ سے بصیغہ"عن" روایت کی ہے۔
تیسری روایت بیان کرکے امام بخاری ؒ نے (عَنعَنَه)
کی بجائے سماع کی تصریح نقل کردی ہے، کیونکہ عنعنہ میں احتمال كی حدتک انقطاع کا شائبہ رہ جاتا ہے۔
نیز آخری دوروایات میں اس جگہ کی بھی تعین کردی گئی ہے جہاں راوی حدیث نے اس عمل کامشاہدہ کیاتھا اور وہ حضرت ام سلمہ ؓ کا گھر ہے اور حضرت ام سلمہ ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں، نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہواکہ مخالفت طرفین اوراشتمال دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 608/1)

علامہ ابن بطال ؒ نے مصنف عبدالرزاق (356/1)
کے حوالے سے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق مناظرہ نقل کیاہے۔
حضرت ابی بن کعب کا موقف تھا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھی جاسکتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس لیے آج بھی اس پر عمل کیا جاسکتا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف تھا کہ ایساکرنا اضطراری حالات کے پیش نظر تھا، جب لوگوں کے ہاں کشادگی اوروسعت نہ تھی۔
آج جب حالات ناگفتہ بہ نہیں ہیں تو نماز کے لیے مکمل لباس پہننا ہوگا۔
حضرت عمر ؓ نے منبر پر کھڑے ہوکر فیصلہ فرمایاکہ بات تو حضرت ابی ؓ کی صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی اجتہاد کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔
(شرح البخاري: 21/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 354   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:355  
355. حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ نے چادر کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں پر ڈالا ہوا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:355]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؓ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ کی تین روایات ذکر کی ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ان کی حکمت بایں الفاظ ذکر کی ہے:
پہلی روایت کی سند عالی ہے، کیونکہ اس میں امام بخاری ؒ اورراوی حدیث حضرت عمر بن ابی سلمہؓ کے درمیان تین واسطے ہیں، اگرچہ علومطلق نہیں، بلکہ نسبی ہے، کیونکہ دوسری اور تیسری روایت کے مقابلے میں علو پایا جاتا ہے۔
تاہم سند گو عالی ہے لیکن اس میں ر اوی حدیث نے اپنے مشاہدے کی صراحت نہیں کی۔
اس کے علاوہ اس میں بصیغہ "عن" روایت کی گئی ہے۔
امام بخاری ؒ نے دوسری سافل سند ذکر کرکے راوی کے مشاہدے کی تصریح نقل کردی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے جو رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے وہ مشاہدے کے بعد کی ہے۔
لیکن اس روایت میں یہ سقم تھا کہ اگرچہ اس میں ہشام نے ا پنے باپ عروہ سے تصریح سماع کردی ہے۔
تاہم حضرت عروہ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ سے بصیغہ"عن" روایت کی ہے۔
تیسری روایت بیان کرکے امام بخاری ؒ نے (عَنعَنَه)
کی بجائے سماع کی تصریح نقل کردی ہے، کیونکہ عنعنہ میں احتمال كی حدتک انقطاع کا شائبہ رہ جاتا ہے۔
نیز آخری دوروایات میں اس جگہ کی بھی تعین کردی گئی ہے جہاں راوی حدیث نے اس عمل کامشاہدہ کیاتھا اور وہ حضرت ام سلمہ ؓ کا گھر ہے اور حضرت ام سلمہ ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں، نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہواکہ مخالفت طرفین اوراشتمال دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 608/1)

علامہ ابن بطال ؒ نے مصنف عبدالرزاق (356/1)
کے حوالے سے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق مناظرہ نقل کیاہے۔
حضرت ابی بن کعب کا موقف تھا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھی جاسکتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس لیے آج بھی اس پر عمل کیا جاسکتا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف تھا کہ ایساکرنا اضطراری حالات کے پیش نظر تھا، جب لوگوں کے ہاں کشادگی اوروسعت نہ تھی۔
آج جب حالات ناگفتہ بہ نہیں ہیں تو نماز کے لیے مکمل لباس پہننا ہوگا۔
حضرت عمر ؓ نے منبر پر کھڑے ہوکر فیصلہ فرمایاکہ بات تو حضرت ابی ؓ کی صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی اجتہاد کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔
(شرح البخاري: 21/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 355   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:356  
356. حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ ہی سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر میں ایک کپڑا لپیٹ کر نماز پڑھتے دیکھا جس کے دونوں کنارے آپ نے اپنے دونوں کندھوں پر ڈال رکھے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:356]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؓ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ کی تین روایات ذکر کی ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ان کی حکمت بایں الفاظ ذکر کی ہے:
پہلی روایت کی سند عالی ہے، کیونکہ اس میں امام بخاری ؒ اورراوی حدیث حضرت عمر بن ابی سلمہؓ کے درمیان تین واسطے ہیں، اگرچہ علومطلق نہیں، بلکہ نسبی ہے، کیونکہ دوسری اور تیسری روایت کے مقابلے میں علو پایا جاتا ہے۔
تاہم سند گو عالی ہے لیکن اس میں ر اوی حدیث نے اپنے مشاہدے کی صراحت نہیں کی۔
اس کے علاوہ اس میں بصیغہ "عن" روایت کی گئی ہے۔
امام بخاری ؒ نے دوسری سافل سند ذکر کرکے راوی کے مشاہدے کی تصریح نقل کردی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے جو رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے وہ مشاہدے کے بعد کی ہے۔
لیکن اس روایت میں یہ سقم تھا کہ اگرچہ اس میں ہشام نے ا پنے باپ عروہ سے تصریح سماع کردی ہے۔
تاہم حضرت عروہ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ سے بصیغہ"عن" روایت کی ہے۔
تیسری روایت بیان کرکے امام بخاری ؒ نے (عَنعَنَه)
کی بجائے سماع کی تصریح نقل کردی ہے، کیونکہ عنعنہ میں احتمال كی حدتک انقطاع کا شائبہ رہ جاتا ہے۔
نیز آخری دوروایات میں اس جگہ کی بھی تعین کردی گئی ہے جہاں راوی حدیث نے اس عمل کامشاہدہ کیاتھا اور وہ حضرت ام سلمہ ؓ کا گھر ہے اور حضرت ام سلمہ ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں، نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہواکہ مخالفت طرفین اوراشتمال دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 608/1)

علامہ ابن بطال ؒ نے مصنف عبدالرزاق (356/1)
کے حوالے سے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق مناظرہ نقل کیاہے۔
حضرت ابی بن کعب کا موقف تھا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھی جاسکتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، اس لیے آج بھی اس پر عمل کیا جاسکتا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف تھا کہ ایساکرنا اضطراری حالات کے پیش نظر تھا، جب لوگوں کے ہاں کشادگی اوروسعت نہ تھی۔
آج جب حالات ناگفتہ بہ نہیں ہیں تو نماز کے لیے مکمل لباس پہننا ہوگا۔
حضرت عمر ؓ نے منبر پر کھڑے ہوکر فیصلہ فرمایاکہ بات تو حضرت ابی ؓ کی صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی اجتہاد کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔
(شرح البخاري: 21/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 356