عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں وادی بطحاء میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور آپ بھی انہیں لوگوں میں تشریف فرما تھے، اچانک لوگوں کے اوپر سے ایک بدلی گزری، لوگ اسے دیکھنے لگے، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:
”کیا تم جانتے ہو اس کا نام کیا ہے؟
“ لوگوں نے کہا: جی ہاں ہم جانتے ہیں، یہ
«سحاب» ہے، آپ نے فرمایا:
”کیا یہ
«مزن» ہے؟
“ لوگوں نے کہا: جی ہاں یہ
«مزن» بھی ہے، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا اسے
«عنان» ۱؎ بھی کہتے ہیں
“، لوگوں نے کہا: جی ہاں یہ
«عنان» بھی ہے، پھر آپ نے لوگوں سے کہا: کیا تم جانتے ہو آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ہم نہیں جانتے، آپ نے فرمایا:
”ان دونوں میں اکہتر
(۷۱) بہتر
(۷۲) یا تہتر
(۷۳) سال کا فرق ہے اور جو آسمان اس کے اوپر ہے وہ بھی اتنا ہی دور ہے
“، اور اسی فرق کے ساتھ آپ نے سات آسمان گن ڈالے، پھر آپ نے فرمایا:
”ساتویں آسمان پر ایک دریا ہے جس کی اوپری سطح اور نچلی سطح میں اتنی دوری ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی دوری ہے
(یعنی وہ اتنا زیادہ گہرا ہے) اور ان کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے
(فرشتے) ہیں جن کی کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری اور لمبائی ہے جتنی دوری اور لمبائی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے، پھر ان کی پیٹھوں پر عرش ہے، عرش کی نچلی سطح اور اوپری سطح میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی سی دوری ہے
(یعنی عرش اتنا موٹا ہے) اور اللہ اس کے اوپر ہے۔ عبد بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین کو کہتے ہوئے سنا ہے، عبدالرحمٰن بن سعد حج کرنے کیوں نہیں جاتے کہ وہاں ان سے یہ حدیث ہم سنتے
۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ولید بن ابوثور نے سماک سے اسی طرح یہ حدیث روایت کی ہے اور اسے مرفوعاً روایت کیا ہے،
۳- شریک نے سماک سے اس حدیث کے بعض حصوں کی روایت کی ہے اور اسے موقوفا روایت کیا ہے، مرفوعاً نہیں کیا،
۴- عبدالرحمٰن، یہ ابن عبداللہ بن سعد رازی ہیں۔
[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3320]