الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
67. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحَاقَّةِ
67. باب: سورۃ الحاقہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3320
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرَةَ، عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، زَعَمَ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا فِي الْبَطْحَاءِ فِي عِصَابَةٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِيهِمْ، إِذْ مَرَّتْ عَلَيْهِمْ سَحَابَةٌ فَنَظَرُوا إِلَيْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا اسْمُ هَذِهِ؟ " قَالُوا: نَعَمْ، هَذَا السَّحَابُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالْمُزْنُ "، قَالُوا: وَالْمُزْنُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالْعَنَانُ "، قَالُوا: وَالْعَنَانُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ؟ " فَقَالُوا: لَا وَاللَّهِ مَا نَدْرِي، قَالَ: " فَإِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَهُمَا إِمَّا وَاحِدَةٌ وَإِمَّا اثْنَتَانِ أَوْ ثَلَاثٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً، وَالسَّمَاءُ الَّتِي فَوْقَهَا كَذَلِكَ، حَتَّى عَدَّدَهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ كَذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَعْلَاهُ وَأَسْفَلِهِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى السَّمَاءِ وَفَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلَافِهِنَّ وَرُكَبِهِنَّ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ فَوْقَ ظُهُورِهِنَّ الْعَرْشُ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ وَاللَّهُ فَوْقَ ذَلِكَ "، قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ، يَقُولُ: أَلَا يُرِيدُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ أَنْ يَحُجَّ حَتَّى نَسْمَعَ مِنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ سِمَاكٍ، نَحْوَهُ وَرَفَعَهُ، وَرَوَى شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكٍ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ أَوْقَفَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ الرَّازِيُّ.
عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں وادی بطحاء میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور آپ بھی انہیں لوگوں میں تشریف فرما تھے، اچانک لوگوں کے اوپر سے ایک بدلی گزری، لوگ اسے دیکھنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو اس کا نام کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں ہم جانتے ہیں، یہ «سحاب» ہے، آپ نے فرمایا: کیا یہ «مزن» ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں یہ «مزن» بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اسے «عنان» ۱؎ بھی کہتے ہیں، لوگوں نے کہا: جی ہاں یہ «عنان» بھی ہے، پھر آپ نے لوگوں سے کہا: کیا تم جانتے ہو آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ہم نہیں جانتے، آپ نے فرمایا: ان دونوں میں اکہتر (۷۱) بہتر (۷۲) یا تہتر (۷۳) سال کا فرق ہے اور جو آسمان اس کے اوپر ہے وہ بھی اتنا ہی دور ہے، اور اسی فرق کے ساتھ آپ نے سات آسمان گن ڈالے، پھر آپ نے فرمایا: ساتویں آسمان پر ایک دریا ہے جس کی اوپری سطح اور نچلی سطح میں اتنی دوری ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی دوری ہے (یعنی وہ اتنا زیادہ گہرا ہے) اور ان کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے (فرشتے) ہیں جن کی کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری اور لمبائی ہے جتنی دوری اور لمبائی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے، پھر ان کی پیٹھوں پر عرش ہے، عرش کی نچلی سطح اور اوپری سطح میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی سی دوری ہے (یعنی عرش اتنا موٹا ہے) اور اللہ اس کے اوپر ہے۔ عبد بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین کو کہتے ہوئے سنا ہے، عبدالرحمٰن بن سعد حج کرنے کیوں نہیں جاتے کہ وہاں ان سے یہ حدیث ہم سنتے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ولید بن ابوثور نے سماک سے اسی طرح یہ حدیث روایت کی ہے اور اسے مرفوعاً روایت کیا ہے،
۳- شریک نے سماک سے اس حدیث کے بعض حصوں کی روایت کی ہے اور اسے موقوفا روایت کیا ہے، مرفوعاً نہیں کیا،
۴- عبدالرحمٰن، یہ ابن عبداللہ بن سعد رازی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3320]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ السنة 19 (4723)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (193) (تحفة الأشراف: 2451) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عمیرہ لین الحدیث راوی ہیں)»

وضاحت: ۱؎: یہ تینوں نام بدلیوں کے مختلف نام ہیں جو مختلف طرح کی بدلیوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔
۲؎: یعنی اگر موسم حج میں یہ حدیث بیان کی جاتی اور جہمیوں کو اس کا پتہ چل جاتا تو خواہ مخواہ کے اعتراضات نہ اٹھاتے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (193)

قال الشيخ زبير على زئي: (3320) سناده ضعيف / د 4723، جه 193

   جامع الترمذيهل تدرون ما اسم هذه قالوا نعم هذا السحاب فقال رسول الله والمزن قالوا والمزن قال رسول الله والعنان قالوا والعنان ثم قال لهم رسول الله هل تدرون كم بعد ما بين السماء والأرض فقالوا لا والله ما ندري قال
   سنن أبي داودما تسمون هذه قالوا السحاب قال والمزن قالوا والمزن قال والعنان قالوا والعنان قال أبو داود لم أتقن العنان جيدا قال هل تدرون ما بعد ما بين السماء والأرض قالوا لا ندري قال إن بعد ما بينهما إما واحدة أو اثنتان أو ثلاث وسبعون سنة ثم السماء فوقها كذلك حتى عد سبع
   سنن ابن ماجهما تسمون هذه قالوا السحاب قال والمزن قالوا والمزن قال والعنان قال أبو بكر قالوا والعنان قال كم ترون بينكم وبين السماء قالوا لا ندري قال فإن بينكم وبينها إما واحدا أو اثنين أو ثلاثا وسبعين سنة والسماء فوقها كذلك حتى عد سبع سماوات ثم فوق السماء السابعة بحر

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3320 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3320  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ تینوں نام بدلیوں کے مختلف نام ہیں جو مختلف طرح کی بدلیوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔

2؎:
یعنی اگر موسم حج میں یہ حدیث بیان کی جاتی اورجہمیوں کو اس کا پتہ چل جاتا توخواہ مخواہ کے اعتراضات نہ اٹھاتے۔

نوٹ:
(سند میں عبد اللہ بن عمیرہ لین الحدیث راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3320