عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تین آدمی خانہ کعبہ کے قریب جھگڑ بیٹھے، دو قریشی تھے اور ایک ثقفی، یا دو ثقفی تھے اور ایک قریشی، ان کے پیٹوں پر چربی چڑھی تھی، ان میں سے ایک نے کہا: کیا سمجھتے ہو کہ ہم جو کہتے ہیں اللہ اسے سنتا ہے، دوسرے نے کہا: ہم جب زور سے بولتے ہیں تو وہ سنتا ہے اور جب ہم دھیرے بولتے ہیں تو وہ نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا: اگر وہ ہمارے زور سے بولنے کو سنتا ہے تو وہ ہمارے دھیرے بولنے کو بھی سنتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وما كنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعكم ولا أبصاركم ولا جلودكم»(فصلت: 22)۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3248]
وضاحت: ۱؎: ”اور تم (اپنی بداعمالیاں) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی، ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بےخبر ہے“(حم السجدہ: ۲۲)۔
ثلاثة نفر كثير شحم بطونهم قليل فقه قلوبهم قرشي وختناه ثقفيان أو ثقفي وختناه قرشيان فتكلموا بكلام لم أفهمه فقال أحدهم أترون أن الله يسمع كلامنا هذا فقال الآخر إنا إذا رفعنا أصواتنا سمعه وإذا لم نرفع أصواتنا لم يسمعه فقال الآخر إن سمع منه شيئا سمعه كله فقال
ثلاثة نفر قرشيان وثقفي أو ثقفيان وقرشي قليلا فقه قلوبهم كثيرا شحم بطونهم فقال أحدهم أترون أن الله يسمع ما نقول فقال الآخر يسمع إذا جهرنا ولا يسمع إذا أخفينا وقال الآخر إن كان يسمع إذا جهرنا فإنه يسمع إذا أخفينا فأنزل الله وما كنتم تستترون أن يشهد عليكم سم
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3248
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اورتم (اپنی بد اعمالیاں) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی، ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جوکچھ بھی کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بے خبر ہے۔ (حٓم السجدہ: 22)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3248