امیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قول «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله»۱؎ اور (دوسرے) قول «من يعمل سوءا يجز به»۲؎ کا مطلب پوچھا، تو انہوں نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا مطلب پوچھا ہے تب سے (تمہارے سوا) کسی نے مجھ سے ان کا مطلب نہیں پوچھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”یہ اللہ کی جانب سے بخار اور مصیبت (وغیرہ) میں مبتلا کر کے بندے کی سرزنش ہے۔ یہاں تک کہ وہ سامان جو وہ اپنی قمیص کی آستین میں رکھ لیتا ہے پھر گم کر دیتا ہے پھر وہ گھبراتا اور اس کے لیے پریشان ہوتا ہے، یہاں تک کہ بندہ اپنے گناہوں سے ویسے ہی پاک و صاف ہو جاتا ہے جیسا کہ سرخ سونا بھٹی سے (صاف ستھرا) نکلتا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2991]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17823) (ضعیف الإسناد) (”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: البقرہ: ۲۸۶۔
۲؎: ”جو برائی کرے گا اس کی سزا پائے گا“(النساء: ۱۲۳)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (6086) ، المشكاة (1557) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2991) إسناده ضعيف علي بن زيد ضعيف (تقدم: 589) وأمية ذكرھا الذھبي فى المجھولات (ميزان الأعتدال 604/4)
هذه معاتبة الله العبد فيما يصيبه من الحمى والنكبة حتى البضاعة يضعها في كم قميصه فيفقدها فيفزع لها حتى إن العبد ليخرج من ذنوبه كما يخرج التبر الأحمر من الكير