علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله فيغفر لمن يشاء ويعذب من يشاء»۱؎ نازل ہوئی۔ تو اس نے ہم سب کو فکرو غم میں مبتلا کر دیا۔ ہم نے کہا: ہم میں سے کوئی اپنے دل میں باتیں کرے پھر اس کا حساب لیا جائے۔ ہمیں معلوم نہیں اس میں سے کیا بخشا جائے گا اور کیا نہیں بخشا جائے؟، اس پر یہ آیت نازل ہوئی «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت»۲؎ اور اس آیت نے اس سے پہلی والی آیت کو منسوخ کر دیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2990]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10336) (ضعیف الإسناد) (سدی اور علی رضی الله عنہ کے درمیان کا راوی مبہم ہے)»
وضاحت: ۱؎: ”تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا، پھر جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے“(البقرہ: ۲۸۴)۔
۲؎: ”اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی کرے وہ اس کے لیے اور جو برائی کرے وہ بھی اس پر ہے“(البقرہ: ۲۸۶)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (2990) إسناده ضعيف من سمع : مجھول و حديث مسلم (199/125) يغني عنه
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2990
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا، پھر جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے (البقرۃ: 284)
2؎: اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی کرے وہ اس کے لیے اور جو برائی کرے وہ بھی اس پر ہے (البقرۃ: 286)
نوٹ: (سدی اور علی رضی الله عنہ کے درمیان کا راوی مبہم ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2990