انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ آپ کے آگے یہ اشعار پڑھتے ہوئے چل رہے تھے۔
«خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» ”اے کفار کی اولاد! اس کے
(یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) راستے سے ہٹ جاؤ، آج کے دن ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑی کو گردنوں سے جدا کر دے گی، ایسی مار ماریں گے جو دوست کو دوست سے غافل کر دے گی
“ عمر رضی الله عنہ نے ان سے کہا: ابن رواحہ! تم رسول اللہ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر پڑھتے ہو؟ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
”انہیں کہنے دو، عمر! یہ اشعار ان
(کفار و مشرکین) پر تیر برسانے سے بھی زیادہ زود اثر ہیں
(یہ انہیں بوکھلا کر رکھ دیں گے)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- عبدالرزاق نے یہ حدیث معمر سے اور معمر نے زہری کے واسطہ سے انس سے اسی طرح روایت کی ہے،
۳- اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث میں مروی ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے
(اس وقت) کعب بن مالک آپ کے ساتھ آپ کے سامنے موجود تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
بعض محدثین کے نزدیک یہ زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ عبداللہ بن رواحہ جنگ موتہ میں مارے گئے ہیں۔ اور عمرۃ القضاء اس کے بعد ہوا ہے
۱؎۔
[سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2847]