انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «يا بني»”اے میرے بیٹے“ کہہ کر پکارا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس سند کے علاوہ کچھ دیگر سندوں سے بھی انس سے روایت ہے، ۳- ابوعثمان یہ ثقہ شیخ ہیں اور ان کا نام جعد بن عثمان ہے، اور انہیں ابن دینار بھی کہا جاتا ہے اور یہ بصرہ کے رہنے والے ہیں۔ ان سے یونس بن عبید اور کئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے، ۴- اس باب میں مغیرہ اور عمر بن ابی سلمہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2831]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4964
´دوسرے کے بیٹے کو اے میرے بیٹے کہنے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے میرے بیٹے!۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4964]
فوائد ومسائل: کسی اور کے بچے کو پیار سے بیٹے یا میرے بیٹے کہ کر پکارلینے میں کوئی حرج نہیں۔ سورۃ احزاب میں جو حکم ہے کہ انہیں ان کے باپوں سے پُکارو۔ یہ لے پالک بچوں کے متعلق ہے کہ ان کے اصل نسب کی شہرت ختم نہ کرو۔ ورنہ پیار سے اور مجازََا اس طرح کہنا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4964
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5623
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اے میرے بیٹے!“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5623]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کسی دوسرے انسان کے لیے کم عمر بیٹے کو پیار و محبت اور شفقت و لطف کے لئے، اے میرے بیٹے (يا بنی، يا بنی) اے میرے بچے (يا ولدی) کہنا جائز ہے، جیسا کہ اپنے ہم عمر کو اس بنا پر (يا اخی) کہنا درست ہے اور اپنے سے بڑی عمر کے شخص کو (يا عمی)(اے چچا) کہنا صحیح ہے۔