الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4964
فوائد ومسائل: کسی اور کے بچے کو پیار سے بیٹے یا میرے بیٹے کہ کر پکارلینے میں کوئی حرج نہیں۔ سورۃ احزاب میں جو حکم ہے کہ انہیں ان کے باپوں سے پُکارو۔ یہ لے پالک بچوں کے متعلق ہے کہ ان کے اصل نسب کی شہرت ختم نہ کرو۔ ورنہ پیار سے اور مجازََا اس طرح کہنا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4964
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2831
´کسی کو پیار و شفقت سے ”میرے بیٹے“ کہنے کا بیان۔` انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «يا بني»”اے میرے بیٹے“ کہہ کر پکارا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2831]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سے ثابت ہوا کہ اپنے بیٹے کے علاوہ بھی کسی بچے کو ”اے میرے بیٹے!“ کہا جا سکتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2831
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5623
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اے میرے بیٹے!“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5623]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کسی دوسرے انسان کے لیے کم عمر بیٹے کو پیار و محبت اور شفقت و لطف کے لئے، اے میرے بیٹے (يا بنی، يا بنی) اے میرے بچے (يا ولدی) کہنا جائز ہے، جیسا کہ اپنے ہم عمر کو اس بنا پر (يا اخی) کہنا درست ہے اور اپنے سے بڑی عمر کے شخص کو (يا عمی)(اے چچا) کہنا صحیح ہے۔