ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کی تہتر شاخیں (ستر دروازے) ہیں۔ سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور کر دینا ہے، اور سب سے بلند «لا إلہ الا اللہ» کا کہنا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ایسے ہی سہیل بن ابی صالح نے عبداللہ بن دینار سے، عبداللہ نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ۳- عمارہ بن غزیہ نے یہ حدیث ابوصالح سے، ابوصالح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے، اور ابوہریرہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا ہے ”ایمان کی چونسٹھ شاخیں ہیں“۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2614]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الإیمان 3 (9)، صحیح مسلم/الإیمان 12 (35)، سنن ابی داود/ السنة 15 (4676)، سنن النسائی/الإیمان 6 (5007)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (57) (تحفة الأشراف: 12816)، و مسند احمد (2/414، 442) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: (حديث: " الإيمان بضع وسبعون ... ") صحيح، (حديث: " الإيمان أربعة وستون بابا ") شاذ بهذا اللفظ (حديث: " الإيمان بضع وسبعون.... ") ، ابن ماجة (57) ، (حديث: " الإيمان أربعة وستون بابا ") // ضعيف الجامع الصغير (2303) //
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 5
´ایمان، دل اور زبان کے اقرار کے ساتھ اعمال کا نام ہے` ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی شاخیں ستر سے زیادہ ہیں سب سے اعلیٰ درجہ کی شاخ «لا اله الا الله» کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ شاخ، تکلیف دہ چیزوں کا راستہ سے دور کر دینا ہے، اور شرم ایمان کی ایک شاخ ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح: 5]
تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 9]، [صحيح مسلم 153،152 واللفظه له]
فقہ الحدیث ➊ عربی لغت میں «بضع» کا لفظ: تین سے لے کر نو تک کے عدد پر بولا جاتا ہے۔ [القاموس الوحيد 169/1] ➋ بعض روایات میں ساٹھ سے زائد درجوں کا ذکر آیا ہے [صحيح بخاري: 9] ایک روایت میں چونسٹھ [الترمذي: 2614ب، احمد 379/2 ح 8913 وسنده صحيح، والقول بشذوذه قول شاذ] اور دوسری روایت میں بہتر [72] کا عدد آیا ہے۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان 202/1 ح 181، وقال: بخبر غريب غريب، دوسرا نسخه 407/1 ح 181 وقال شعيب الأرناووط: أسناده صحيح عليٰ شرطهما] بعض علماء کہتے ہیں کہ یہاں تحدید (حد بندی) مراد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ سب الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں جو کہ راویوں نے یاد رکھے ہیں، یہاں تین باتیں ملحوظ خاطر ہیں: اول: یہ درجات مختلف لوگوں کے احوال سے ہیں، مثلاً انبیاء، صحابہ، تابعین، تبع تابعین، شہداء، صدیقین و صالحین کے ستر سے زائد درجے ہیں، اسی طرح علماء اور عوام کے درجات میں بھی فرق ہے۔ دوم: بعض علماء کے نزدیک ایمان کے ان درجات میں سے بعض درجوں کی آگے ایک دو شاخیں ہیں، اس لحاظ سے جب ساٹھ سے زیادہ کا عدد بولا جائے گا تو اصل درجات مراد ہوں گے اور اگر ستر سے زیادہ کا عدد بولا جائے گا تو بعض درجات کی شاخیں بھی شامل ہوں گی۔ سوم: بعض کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ساٹھ سے زائد درجات اور احادیث مطہرہ میں ستر سے زائد درجات کا ذکر موجود ہے، لہٰذا جب ساٹھ کا لفظ بولا جائے گا تو کتاب اللہ کے درجے مراد ہوں گے اور ستر کے لفظ سے کتاب و سنت، دونوں کے درجات مراد ہوں گے۔ «والله اعلم» ➌ عینی حنفی نے ایمان کے ستتر 77 درجات کے نام لکھ کر شرح صحیح بخاری میں جمع کر دیے ہیں۔ [عمدةالقاري 128/1۔ 129 ح 9] ➍ ایمان کے ان درجات کے نام بالتفصیل معلوم ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ یہی کافی ہے کہ آدمی قرآن و حدیث و اجماع پر ایمان رکھے۔ ایک مسلمان جب راستے سے ہڈی وغیرہ اٹھا کر راستہ صاف کر رہا ہوتا ہے تو یہ ایمان کا ایک درجہ ہے، اگرچہ اسے یہ علم بھی نہ ہو اور وہ اسے نیکی کا ایک معمولی کام ہی سمجھتا ہو۔ ➎ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان، دل اور زبان کے اقرار کے ساتھ اعمال کا نام ہے۔ اسی پر تمام اہل حق کا اجماع ہے۔ ◈ شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وتعتقد أن الايمان قول باللسان و معرفة بالجنان و عمل بالأر كان، يزيد بالطاعة وينقص بالعصيان» اور یہ عقیدہ رکھو کہ ایمان ① زبان کے ساتھ اقرار ② دل کے ساتھ یقین ③ اور ارکان کے ساتھ عمل کا نام ہے ④ اطاعت سے زیادہ ہوتا ہے ⑤ اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے۔ [غنية الطالبين 109/1] ◈ تقریباً یہی کلام و مفہوم شرح السنۃ للبغوی [39/1 ح 19] وغیرہ میں لکھا ہوا ہے۔ ◈ قاضی عبدالرحمٰن دیوبندی صاحب فرماتے ہیں: ”اور میری آخری تحقیق یہ ہے کہ حنفیہ بھی اعمال کو ایمان کا جزء مانتے ہیں۔“[فضل الباري شرح اردو صحيح بخاري 317/1، از افادات شبير احمد عثماني] ➏ ایمان کے مختلف درجے ہیں، لہٰذا یہ زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔ سیدنا عمیر بن حبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم (بھی) ہوتا ہے۔ [كتاب الايمان لابن ابي شيبه: 14 وسنده صحيح، الحديث: 23/2 توضيح الاحكام] امام مالک، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، ابن جریج اور معمر کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل (کا نام) ہے، زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔ [كتاب الشريعة للآجري ص 119 ح 243، وسنده صحيح] یہی عقیدہ امام احمد بن حنبل، اوزاعی اور وکیع وغیرہم سے ثابت ہے۔ [الشريعة ص120، 119، باسانيد صحيحه] ➐ حیا کا ذکر یہاں بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ ایمان کا ایک اہم ترین درجہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «الحياء لا ياتي إلا بخير» حیا نیکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں لاتی۔“[صحيح بخاري: 6117 و صحيح مسلم: 156] ایک روایت میں ہے «الحياء خير كله»”ساری خیر (نیکی) حیا ہے۔“[صحيح مسلم 37/61 وترقيم دارالسلام: 157] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «إذا لم تستح فاصنع ما شئت» اگر تیرے اندر حیا نہیں تو جو مرضی ہے کر۔“[صحيح بخاري: 6120] ➑ اس روایت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، مگر ثبوت شئی کے بعد اس کا عدم ذکر، نفی کی دلیل نہیں ہوتا، دوسرے یہ کہ لا الٰہ الا اللہ کا لازمی تقاضا یہی ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد، آپ پر ایمان کے بغیر لا الٰہ الا اللہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 152
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیا سے خیر اور بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے۔“ اس پر بشیر بن کعب نے کہا: حکمت اور (دانائی کی کتابوں) میں لکھا ہوا کہ اس (حیا) سے وقا ر ملتا ہے... [صحيح مسلم 152]
سوال: کیا ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے؟ دلائل سے واضح کریں۔
………… الجواب …………
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَاَمَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا فَزَادَتْـهُـمْ اِيْمَانًا﴾
بے شک جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان زیادہ ہوتا ہے۔ (سورۃ التوبہ: 124)
اس مفہوم کی دیگر آیات کے لئے دیکھئے صحیح البخاری (کتاب الایمان، باب: 1 قبل ح 8)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ»
ایمان کے ساٹھ سے زائد درجے ہیں اور حیا ایمان کا (ایک) درجہ ہے۔ (صحیح بخاری: 9، صحیح مسلم: 57/35، دارالسلام: 152)
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَنْ أَحَبَّ لِلّٰهِ، وَأَبْغَضَ لِلّٰهِ، وَأَعْطَي لِلّٰهِ، وَمَنَعَ لِلّٰهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ»
جو شخص اللہ کے لئے محبت کرے اور اللہ کے لئے بغض رکھے، اللہ کے لئے (مال) دے اور اللہ کے لئے (ہی مال) روکے تو اس کا ایمان مکمل ہے۔ (ابو داود: 4681 وسندہ حسن)
عمیر بن حبیب بن خماشہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ»
ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔ (کتاب الایمان لابن ابی شیبہ: 14، وسندہ صحیح)
اس کے راوی یزید بن عمیر کو امام عبدالرحمٰن بن مہدی نے ”قوم توارثوا الصدق“ میں سے قرار دیا ہے۔ (مسائل محمد بن عثمان بن ابی شیبہ: 25 بتحقیقی، المؤتلف والمختلف للدارقطنی 2/ 923)
اہل سنت کا یہی مسلک و موقف ہے کہ ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے۔ (دیکھئے الشریعۃ للامام محمد بن الحسین الآجری ص 116-118) وشرح اصول اعتقاد اہل السنۃ للالکائی (5/ 890-964) وغیرہما۔
یہی عقیدہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل وغیرہم کا ہے۔ رحمہم اللہ اجمعین
جبکہ عقائد نسفیہ (ص 92) میں لکھا ہوا ہے: «والإيمان لا يزيد ولا ينقص»
ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے۔
حقانی عقائدالاسلام میں ہے، ایمان فقط تصدیق قلب کانام ہے۔ دیکھئے حقانی عقائدالاسلام (ص 123، تصنیف عبدالحق حقانی وپسند فرمودہ: محمد قاسم نانوتوی)
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «حَدَّثَنَا الهذيل بْنُ سُلَيْمَانَ أَبُو عِيسَي قَالَ: سَأَلْتُ الْأَوْزَاعِيَّ قُلْتُ: يَا أَبَا عَمْرٍو مَا تَقُولُ فِي رَفْعِ الْأَيْدِيْ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ، وَهُوَ قَائِمٌ فِي الصَّلَاةِ؟ قَالَ: ذَلِكَ الْأَمْرُ الْأَوَّلُ، وَسُئِلَ الْأَوْزَاعِيُّ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنِ الْإِيمَانِ فَقَالَ: الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ. فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ الْإِيمَانَ لَا يَزِيدُ وَلَا يَنْقُصُ فَهُوَ صَاحِبُ بِدْعَةٍ فَاحْذَرُوهُ»
ہمیں ہذیل بن سلیمان ابو عیسیٰ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے اوزاعی سے پوچھا، میں نے کہا: اے ابو عمرو! آپ ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کے بارے میں کیا کہتے ہیں، جبکہ آدمی نماز میں کھڑا ہو؟ انھوں نے کہا: یہ پہلے والی بات ہے (یعنی اسلاف کا اسی پر عمل ہے) اور اوزاعی سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا اور میں سن رہاتھا تو انھوں نے فرمایا: ایمان زیادہ (بھی) ہوتا ہے اور کم (بھی) ہوتا ہے، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ایمان زیادہ اور کم نہیں ہوتا وہ شخص بدعتی ہے اس سے بچو۔ (جزء رفع الیدین بتحقیقی: 108، حسن ہے، قلمی بخط یدی ص 129) تنبیہ: میں نے جزء رفع یدین کے ترجمہ میں ”حسن ہے“ لکھا تھا جو کہ کمپوزر کی غلطی سے ”ضعیف ہے“ چھپ گیا، اس غلطی کی اصلاح مراجعت میں بھی رہ گئی، میرا طریق کار یہ ہے کہ میں ضعیف روایت کی وجہ بیان کر دیتا ہوں جبکہ جزء رفع یدین کے مطبوعہ نسخے میں ضعیف کی کوئی وجہ مذکور نہیں ہے۔ جزء رفع یدین کے عربی نسخے والی اصل پر بھی میرے ہاتھ سے بالکل صاف ”اسنادہ حسن“ لکھا ہوا ہے (قلمی ح 108) لہٰذا اپنے نسخوں کی اصلاح کر لیں۔
ہذیل بن سلیمان سے مراد فدیک بن سلیمان ہیں جن سے امام بخاری وغیرہ نے روایت بیان کی ہے اور امام بخاری عام طور پر اپنے نزدیک صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں، نیز حافظ ابن حبان نے بھی ان توثیق کی ہے لہٰذا فدیک ”مذکور“ حسن الحدیث ہیں۔
امام اوزاعی (متوفی 157ھ) کے اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ایمان کم اور زیادہ نہیں ہوتا وہ لوگ بدعتی ہیں۔ «أعاذنا الله من شرّهم»
………… اصل مضمون …………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 1 صفحہ 72 تا 74) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 152
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 9
´ایمان کوئی جامد چیز نہیں بلکہ اس کی مختلف شاخیں ہیں` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 9]
� لغوی توضیح: «بِضْعٌ» تین سے نو تک کا عدد۔ «شُعْبَة» شاخ، حصہ
فہم الحدیث: معلوم ہوا کہ ایمان کوئی جامد چیز نہیں بلکہ اس کی مختلف شاخیں ہیں اور ان شاخوں کی کمی بیشی کے اعتبار سے ایمان میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ ایک روایت میں کلمہ «لا اله الا الله» کو ایمان کی اعلی ترین شاخ اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو ایمان کی ادنیٰ ترین شاخ قرار دیا گیا ہے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان عدد شعب الايمان 35] اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان میں قلبی اعمال کے ساتھ ساتھ بدنی اعمال بھی شامل ہیں۔ حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے اور خیر و برکت کا باعث ہے، یہی وجہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں نے پہلی نبوت کے کلام میں سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تو حیاء نہ کرے تو جو چاہے کر۔ [بخارى: كتاب أحاديث الأنبباء: باب حديث الغار: 3484، ابو داود: 4797، ابن ماجه: 4183] رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ آپ مخصوص حجرے میں موجود کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ [أخرجه البخاري: 3562، أخرجه مسلم: 232] واضح رہے کہ جو حیاء قابل تعریف ہے وہ ایسی حیاء ہے جو معاصی سے روکے، لیکن جو حیاء نیکیوں اور واجبات پر عمل سے ہی روک دے مثلاً اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ سے یا اہل علم سے شرعی مسائل و احکام دریافت کرنے سے شرم محسوس ہو تو یہ حیاء قابل مذمت ہے، قابل تعریف نہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ بہترین عورتیں انصار کی عورتیں ہیں کیونکہ انہیں دین کے مسائل سیکھنے سے حیا نہیں روکتی۔ [حسن: صحيح ابن ماجه: كتاب الطهارة وسننها 642]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 21
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 9
´اصل نیکیاں تو ایمان راسخ، عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 9]
� تشریح: حضرت امیر المحدثین علیہ الرحمۃ سابق میں بنیادی چیزیں بیان فرما چکے اب فروع کی تفصیل پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے باب میں «امور الايمان» کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مرجیہ کی تردید کرنا بھی مقصود ہے۔ کیونکہ پیش کردہ قرآنی آیات کریمہ میں سے پہلی آیت میں بعض امور ایمان گنائے گئے ہیں اور دوسری آیتوں مین ایمان والوں کی چند صفات کا ذکر ہے۔ پہلی آیت سورۃ بقرہ کی ہے جس میں دراصل اہل کتاب کی تردید مقصود ہے۔ جنہوں نے تحویل قبلہ کے وقت مختلف قسم کی آواز یں اٹھائی تھیں۔ نصاریٰ کا قبلہ مشرق تھا اور یہود کا مغرب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا، پھر مسجد الحرام کو آپ کا قبلہ قرار دیا گیا اور آپ نے ادھر منہ پھیر لیا۔ اس پر مخالفین نے اعتراضات شروع کئے۔ جن کے جواب میں اللہ پاک نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی اور بتلایا کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرکے عبادت کرنا ہی بالذات کوئی نیکی نہیں ہے۔ اصل نیکیاں تو ایمان راسخ، عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ معاشرتی پاک زندگی اور اخلاق فاضلہ ہیں۔
حافظ ابن حجر نے عبدالرزاق سے بروایت مجاہد حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ انہو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تھا۔ آپ نے جواب میں آیت شریفہ «ليس البر ان تولو ا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخره والملائكةوالكتٰب والنبيين واٰتي المال على حبه ذوي القربي ٰ واليتمي والمساكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب واقام الصلٰوة واتٰي الزكٰوة والموفون بعهدهم اذا عاهدوا والصٰبرين فى الباساءوالضراءو حين الباس اولٰئك الذين صدقوا واولٰئك هم المتقون»[البقرہ: 177] ترجمہ اوپر باب میں لکھا جا چکا ہے۔
آیات میں عقائد صحیحہ وایمان راسخ کے بعد ایثار، مالی قربانی، صلہ رحمی،حسن معاشرت، رفاہ عام کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کے بعد اعمال اسلام نماز، زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ پھر اخلاق فاضلہ کی ترغیب ہے۔ اس کے بعد صبر واستقلال کی تلقین ہے۔ یہ سب کچھ «بر» کی تفسیر ہے۔ معلوم ہوا کہ جملہ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ ارکان اسلام میں داخل ہیں۔ اور ایمان کی کمی وبیشی بہر حال وبہر صورت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مرجیہ جو اعمال صالحہ کو ایمان سے الگ اور بیکا ر محض قرار دیتے ہیں اور نجات کے لیے صرف ”ایمان“ کو کافی جانتے ہیں۔ ان کا یہ قول سراسر قرآن و سنت کے خلاف ہے۔
سورۃ مومنون کی آیات یہ ہیں «بسم الله الرحمٰن الرحيم قد افلح المومنون الذين هم فى صلاتهم خٰشعون والذين هم عن اللغومعرضون والذين هم للزكوة فٰعلون والذين هم لفروجهم حٰفظون الا عليٰ ازواجهم اوما ملكت ايمانهم فانهم غير ملومين فمن ابتغيٰ وراءذلك فاولٰئك هم العٰدون والذين هم لامٰنٰتهم وعهدهم رٰعون والذين هم عليٰ صلاتهم يحافظون اولٰئك هم الوارثون الذين يرثون الفردوس هم فيها خٰلدون»[المؤمنون: 11-1] اس پیرایہ میں یہ بیان دوسرا اختیار کیا گیا ہے۔ مقصد ہر دو آیات کا ایک ہی ہے۔ ہاں اس میں بذیل اخلاق فاضلہ، عفت، عصمت شرم و حیا کو بھی خاص جگہ دی گئی ہے۔ اس جگہ سے آیت کا ارتباط اگلی حدیث سے ہو رہا ہے جس میں حیا کو بھی ایمان کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہے۔
حضرت امام نے یہاں ہر دو آیت کے درمیان واؤ عاطفہ کا استعمال نہیں فرمایا۔ مگر بعض نسخوں میں واؤ عاطفہ اور بعض میں و قول اللہ کا اضافہ بھی ملتا ہے۔ اگر ان نسخوں کو نہ لیا جائے تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ وجہ بیان فرمائی کہ حضرت الامام پہلی آیت کی تفسیر میں «المتقون» کے بعد اس آیت کو بلا فصل اس لیے نقل کر رہے ہیں۔ تاکہ متقون کی تفسیر اس آیت کو قرار دے دیا جائے۔ مگر ترجیح واؤ عاطفہ اور و قول اللہ کے نسخوں کو حاصل ہے۔
آیات قرآنی کے بعد حضرت امام نے حدیث نبوی کو نقل فرمایا اور اشارتاً بتلایا کہ امور ایمان ان ہی کو کہا جانا چاہیے جو پہلے کتاب اللہ سے اور پھر سنت رسول سے ثابت ہوں۔ حدیث میں ایمان کو ایک درخت سے تشبیہ دیکر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں بتلائی گئی ہیں۔ اس میں بھی مرجیہ کی صاف تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے جوڑ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ کی درخت کی جڑمیں اور اس کی ڈالیوں میں ایک ایسا قدرتی ربط ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ جڑ قائم ہے تو ڈالیاں اور پتے قائم ہیں۔ جڑ سوکھ رہی ہے تو ڈالیاں اور پتے بھی سوکھ رہے ہیں۔ ہو بہو ایمان کی یہی شان ہے۔ جس کی جڑ کلمہ طیبہ «لا اله الا الله» ہے۔ اور جملہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ وعقائد راسخہ اس کی ڈالیاں ہیں۔ اس سے ایمان واعمال صالحہ کا باہمی لازم ملزوم ہونا اور ایمان کا گھٹنا اور بڑھنا ہر دو امور ثابت ہیں۔
بعض روایت میں «بضع وستون» کی جگہ «بضع وسبعون» ہے اور ایک روایت میں «اربع وستون» ہے۔ اہل لغت نے «بضع» کا اطلاق تین اور نو کے درمیان عدد پر کیا ہے۔ کسی نے اس کا اطلاق ایک اور چار تک کیا ہے، روایت میں ایمان کی شاخون کی تحدید مراد نہیں بلکہ کثیر مراد ہے۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ بعض علماء تحدید مراد لیتے ہیں۔ پھر «ستون»(60) اور «سبعون»(70) اور زائد «سبعون» کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ زائد میں ناقص بھی شامل ہو جاتا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک «ستون»(60) ہی متیقن ہے۔ کیونکہ مسلم شریف میں بروایت عبداللہ بن دینار جہاں «سبعون» کا لفظ آیا ہے بطریق شک واقع ہوا ہے۔
«والحياء شعبة من الايمان» میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ حیا طبیعت کے انفعال کو کہتے ہیں۔ جو کسی ایسے کام کے نتیجہ میں پیدا ہو جو کام عرفاً شرعاً مذموم، برا، بےحیائی سے متعلق سمجھا جاتا ہو۔ حیا وشرم ایمان کا اہم ترین درجہ ہے۔ بلکہ جملہ اعمال خیرات کا مخزن ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا «اذا لم تستحي فاصنع ما شئت»”جب تم شرم و حیا کو اٹھا کر طاق پر رکھ دو پھر جو چاہو کرو۔“ کوئی پابندی باقی نہیں رہ سکتی۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث ہذا کی تشریح میں مستقل ایک کتاب شعب الایمان کے نام سے مرتب فرمائی ہے۔ جس میں ستر سے کچھ زائد امور ایمان کو مدلل ومفصل بیان فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ امام ابو عبداللہ حلیمی نے فوائد المنہاج میں اور اسحاق ابن قرطبی نے کتاب النصائح میں اور امام ابو حاتم نے وصف الایمان و شعبہ میں اور دیگر حضرات نے بھی اپنی تصنیفات میں ان شاخوں کو معمولی فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سب کو اعمال قلب (دل کے کام) اعمال لسان (زبان کے کام) اعمال بدن (بدن کے کام) پر تقسیم فرما کر اعمال قلب کی 24 شاخیں اور اعمال لسان کی سات شاخیں اور اعمال بدن کی 38 شاخیں بالتفصیل ذکر کی ہیں۔ جن کا مجموعہ 69 بن جاتا ہے۔ روایت مسلم میں ایمان کی اعلیٰ شاخ کلمہ طیبہ «لااله الا الله» اور ادنیٰ شاخ «اماطة الاذي عن الطريق» بتلائی گئی ہے۔ اس میں تعلق باللہ اور خدمت خلق کا ایک لطیف اشارہ ہے۔ گویا دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ تب ایمان کامل حاصل ہوتا ہے۔ خدمت خلق میں راستوں کی صفائی، سڑکوں کی درستگی کو لفظ ادنیٰ سے تعبیر کیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدمت خلق کا مضمون بہت ہی وسیع ہے۔ یہ تو ایک معمولی کام ہے جس پر اشارہ کیا گیا ہے۔ ایمان باللہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے شروع ہو کر اس کی مخلوق پر رحم کرنے اور مخلوق کی ہر ممکن خدمت کرنے پر جا کر مکمل ہوتا ہے۔ اس شعر کے یہی معنی ہیں
❀ خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر ٭ نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر ❀ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر ٭ خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 9
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5008
´ایمان کی شاخوں کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں، ان میں سب سے سب سے بہتر لا الٰہ الا اللہ اور سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے، اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5008]
اردو حاشہ: (1)”شاخوں“ سےمراد عقائد واعمال اور اخلاق ہیں۔ (2)”افضل“ کیونکہ اس کے بغیر ایمان معتبر ہی نہیں ہوتا۔ (3)”کم مر تبہ“ یعنی درجے اور ثواب کے لحاظ سے یا محبت اور مشقت کے لحاظ سے یا حصول وجود کے لحاظ سے۔ (4)”تکلیف دہ“ جسمانی طور پر، جیسے روڑ یے اور کانٹے وغیرہ یا روحانی طور پر جیسے نجاست اور بدبووغیر ہ۔ واللہ أعلم.
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5008
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5009
´ایمان کی شاخوں کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیاء (شرم) ایمان کی ایک شاخ ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5009]
اردو حاشہ: حیا و خصلت ہے جو انسان کو قبیح باتوں اور کاموں سے روکتی ہے تا کہ رسوائی نہ ہو۔ لیکن حیا شریعت کے مطابق ہونی چاہئیے، مثلا: طلب علم، حق گوئی اور نیک کام میں حیا نہیں ہونی چاہیئے۔ اس حدیث میں حیا کا خصوصی ذکر ہے اس لیے ہے کہ حیا ہرنیکی کرنے اور برائی سے اجتناب کا سبب بنتی ہے جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حیا جس چیز میں بھی ہو، اسے مزین اور خوب صورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سےنکل جائے وہ قبیح بن جاتی ہے۔ (مسند احمد:3/165،وسنن ابن ماجہ،الزھد،حدیث:4185)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5009
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4676
´ارجاء کی تردید کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل ”لا إله إلا الله“ کہنا، اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ہے ۲؎، اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۳؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4676]
فوائد ومسائل: 1: سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے نزدیک ایمان زبان کے قول، دل کی حقیقی تصدیق اور اعضاء کے اعمال کا نام ہے، شیخ محی الدین کا قول ہے: یہ بات واضح اور راجح ہے کہ زیادہ سے زیادہ غور وفکر اور واضح سے واضح تر دلیل کی وجہ سے تصدیق قلب میں زیادتی ہوتی ہے، جب صدیقیت حاصل ہو تو اس کا ایمان دوسروں سے زیادہ اور مضبوط ہوتا ہے۔ تصدیق قلب کا عمل ہے باقی اعضاء کے عمل بھی زیادہ کم ہوں گے تو یہ ایمان کی کمی یا اضافے کا سبب ہوں گے، کیونکہ عمل ایمان کے کمال میں شامل ہے۔ سلف صالحین کے نزدیک دیگر اعضاء (اعضائے ظاہری) کے عمل کمال ایمان کی شرط ہیں، البتہ معتزلہ کے نزدیک یہ اعمال ایمان کی صحت کی شرط ہیں۔ (فتح الباري،کتاب الإیمان) 2: سو جو کوئی جس قدر شرعی اعمال بجا لائے اسی قدر اس کا ایمان کا مل ہوتا جائے گا ورنہ اسی قدر ناقص رہے گا۔ جب آپ نے ایمان کے مدارج بیان فرمائے ہیں تو مرجہ کا یہ قول کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ ایمان کم وپیش نہیں ہوتا۔
3: سب سے افضل اوراعلی عمل «لا إله إلا الله»(توحید) کا قرارہے اور محمد رسول ؐ کی رسالت کا اقرار اس کا لازمی حصہ ہے، کیونکہ توحید وہی معتبر ہے جو رسول ؐ نے بتائی ہے لہذا جو شخص رسالت کا منکر ہو اس کی توحید بھی معتبر نہیں، جیسے کی درج ذیل حدیث میں وضاحت آرہی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4676
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث57
´ایمان کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کے ساٹھ یا ستر سے زائد شعبے (شاخیں) ہیں، ان میں سے ادنی (سب سے چھوٹا) شعبہ ۱؎ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، اور سب سے اعلیٰ اور بہتر شعبہ «لا إله إلا الله»”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں“ کہنا ہے، اور شرم و حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے“۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 57]
اردو حاشہ: (1) ایمان کی مثال ایک درخت کی سی ہے، توحید و رسالت پر ایمان اس کی جڑ ہے اور اعمال صالحہ شاخیں اور دنیوی اور اخروی فوائد اس کے پھل ہیں، اگر درخت کی جڑ باقی نہ رہے تو درخت بھی قائم نہیں رہ سکتا، البتہ اگر کوئی شاخ کٹ جائے تو درخت پھر بھی قائم رہتا ہے اگرچہ ناقص ہو جاتا ہے۔ اسی طرح گناہوں سے ایمان میں نقص پیدا ہوتا ہے اور نیکیوں سے ایمان کی تکمیل و ترقی ہوتی ہے۔
(2) سبھی نیکیاں ایمان کی شاخیں ہیں لیکن سب سے اہم کلمہ توحید ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ“ کا زبان سے اقرار ہے کیونکہ اسی کے نتیجے میں اسے ایمان کے دیگر فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ زبان کے ساتھ اقرار کے بغیر ایمان معتبر نہیں۔
(3) کسی نیکی کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرنا درست نہیں کیونکہ مومن کے دل میں نیکی کی خواہش ایمان ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے وہ ایمان کی شاخ ہے۔
(4) حیا ایمان کی ایک اہم شاخ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انسان بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے، البتہ اس سے وہ بے جا حیا مراد نہیں جو انسان کو دینی مسائل پوچھنے سے، علم حاصل کرنے سے یا نیکی کا کوئی اور کام کرنے سے روک دے۔
(5) ایمان میں زبانی اعمال بھی شامل ہیں اور قلبی اعمال بھی اور دوسرے اعضاء جوارح سے انجام دیے جانے والے اعمال بھی مثلا ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ“ کا اقرار زبان کا عمل ہے، اس پر یقین رکھنا دل کا عمل ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا دیگر اعضاء کا عمل ہے۔ یہ سب ایمان کی شاخیں اور اس کے اجزاء ہیں۔
(6) ہر وہ عمل اچھا اور مطلوب ہے جس سے عام انسانوں کو فائدہ پہنچے۔ ضرروی نہیں کہ وہ فائدہ صرف مسلمانوں تک محدود ہو، بشرطیکہ اس سے اسلام کے کسی اور حکم کی مخالفت نہ ہوتی ہو۔
(7) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان کے کئی جزء ہیں اور جس چیز کے اجزاء ہوتے ہیں اس چیز میں کمی و بیشی ضررو ہوتی ہے، لہذا ایمان میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔
(8) ایمان کی ان شاخوں پر عمل کے اعتبار سے جس قدر مومن مضبوط ہو گا اس کا ایمان بھی زیادہ ہو گا اور جس قدر کمزور ہو گا اس کا ایمان بھی اسی قدر کم ہو گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 57
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 152
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ایمان کی ستّر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:152]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) بِضْعٌ: اگر عدد کے لیے استعمال ہو تو بِضْعٌ اور بِضْعَةٌ کی باء پر زبر اور زیر دونوں پڑھ لیتے ہیں گوشت کا ٹکڑا بھی مراد لیا جاتا ہے۔ عدد میں، تین سے نو یا دس تک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (2) الْشُّعْبَةُ: حصہ، ٹکڑا، جز۔ فوائد ومسائل: (1) عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی روایت میں اسلام کو ایک عمارت یا خیمہ سے تشبیہ دی گئی تھی اور یہاں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ایمان کو ایک درخت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ظاہر ہے درخت مرکب ہے چند اجزا سے یعنی: جڑ، شاخیں اور پتے، بسیط نہیں ہے، یعنی صرف جڑ یا تنے کا نام نہیں ہے، لیکن ان تمام اجزا کی حیثیت یکساں نہیں ہے، بلکہ اجزا ایسے ہیں کہ ان کے سوا بھی اصل حقیقت شجرۃ (درخت) برقرار اور قائم رہتی ہے گو ان میں نقص اور کمی آجائے جیسا کہ شاخیں، ٹہنیاں اور پتے ہیں اور بعض اجزا ایسے ہیں کہ اگر وہ نہ رہیں، اور باقی اجزا موجود ہوں تو درخت قائم نہیں رہتا، جیسا کہ جب جڑ اور اصل (تنہ) کو کاٹ دیا جائے اور شاخیں اور پتے صحیح وسالم ہوں تو درخت ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایمان بھی تین چیزوں سے مرکب ہے، یعنی اس کے تین اجزا ہیں، مگر تینوں کی حیثیت ورتبہ یکساں اور برابر نہیں ہے، اس لیے ایمان میں کمی وبیشی ہوتی رہتی ہے۔ اس حدیث میں ایمان کے "بِضْعٌ وسَبْعُونَ" ”ستر سے زائد شعبے“ بتائے گئے ہیں، اور بخاری کی روایت "بِضْعٌ وسِتُّونِ" ”ساٹھ سے زائد“ اس لیے دونوں حدیثوں کی تطبیق میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کا نظریہ ہے ستر کے لفظ سے محض کثرت مراد ہے، اہل عرب محض مبالغہ اور کثرت کے لیے بھی ستر کا لفظ استعمال کرلیتے ہیں، عدد متعین مراد نہیں ہوتا۔ علامہ عینیؒ نے تصدیق بالقلب کے لحاظ سے ایمان کی اکتیس شاخیس، اقرار باللسان کے لحاظ سے سات اور عمل بالارکان کے لحاظ سے چالیس شاخیں بیان کی ہیں، اس طرح کل شاخیں اٹھتر بنتی ہیں۔ اور حافظ ابن حجرؒ کی تحقیق کے مطابق اعمال قلبی چوبیس، اعمال لسانی ساتھ اور اعمال بدنی اڑتیس ہیں، اس طرح تعداد اٹہتر بنتی ہے۔ (فتح الباری: 1/73، 74) علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کا خیال ہے کہ قرآن مجید میں بعض ایسے شعبے بھی بیان کیے گئے ہیں کہ اگر ان کو ایک شمار کیا جائے تو پھر بھی ٹھیک ہے اور ایک سے زائد مان لیں تو پھر بھی درست ہے، مثلاً: قرآن مجید میں انفاق فی سبیل اللہ کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے اور زکاۃ بھی ایمان کا شعبہ ہے۔ اسی طرح اجتناب عن الکذب (جھوٹ سے بچنا) ایک شعبہ ہے اور ایک شعبہ جھوٹی شہادت سے پرہیز کرنا ہے، اس قسم کے چھ شعبے ہیں، ان کو اگر ایک ایک مانا جائے تو تعداد سڑسٹھ بنتی ہے اور اگر دو دو مانا جائے تو بہتر۔ اسی طرح ایک اعتبار سے "بِضْعٌ وسِتُّونِ" ہوگا اور دوسرے اعتبار سے "بِضْعٌ وسَبْعُونَ" (فضل الباری شرح صحیح بخاری اردو ج: 1 ص: 318) ۔ (2) اس حدیث سے ایمان کا مرکب ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن بعض حضرات اس کو بسیط مانتے ہیں، اس سلسلہ میں مختلف مذاہب ومسالک کی تفصیل حسب ذیل ہے: ۔ ایمان کے بسیط ہونے کے اعتبار سے مسالک ومذاہب: (1) جَهْمِيَة: جو جہم بن صفوان کے پیروکار ہیں، ان کے نزدیک: ایمان فقط معرفتِ قلبی کا نام ہے، وہ معرفت اختیاری ہو یا اضطراری، اعمال جیسے بھی ہوں لیکن اس صورت میں تو ابلیس اور فرعون بھی مومن ہیں؛ کیونکہ دلی طور پر اللہ تعالیٰ کو وہ بھی جانتے تھے۔ ابلیس کا قول ہے ﴿رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي﴾(حجرات: 39) فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں ہے ﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ﴾(نمل: 14)(2) کَرَّامِیَة: جو محمد بن کرام کے متبع ہیں، ان کے نزدیک: ایمان صرف اقرار باللسان (زبان سے تسلیم کرنا) کا نام ہے، اس طرح منافق بھی مومن ہوں گے، الا یہ کہ یہ مراد ہو کہ وہ دنیوی احکام کے اعتبار سے مومن ہیں، کیونکہ یہ تو ظاہر کے پابند ہیں، باطن (دل) کو تو اللہ ہی جانتا ہے، اس لیے منافقوں کو مسلمان ہی تصور کیا جاتا ہے۔ آخرت میں فیصلہ باطن کے مطابق ہوگا۔ (3) مُتَکَلِّمِیْن: ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماترید اور ان کے متبعین کے نزدیک: ایمان تصدیقِ قلبی کا نام ہے، ان حضرات کے نزدیک اقرار باللسان (زبان سے اقرار) دینوی احکام میں مسلمان تصور کرنے کے لیے شرط ہے کہ اس کے بغیر اسکے مسلمان ہونے کا پتہ نہیں چلے گا، اور ظاہر ہے کسی چیز کی شرط اس کا رکن یا جز نہیں ہوتی، جس طرح وضو نماز کے لیے شرط ہے، نماز کا رکوع وسجود کی طرح رکن یا جز نہیں ہے۔ بعض احناف بھی اس کے قائل ہیں، احناف فقہاء اقرار باللسان کو رکن مانتے ہیں، لیکن رکنِ زائد جو ساقط ہو سکتا ہے۔ (4) مُرْجِئَہ: ان کے تین قو ل منقول ہیں: (1) ایمان صرف اقرار باللسان کا نام ہے۔ (2) ایمان صرف تصدیق قلبی (دل سے ماننا) کا نام ہے۔ (3) ایمان تصدیق قلبی اور اقرار باللسان کا نام ہے۔ اس تیسرے قول کے رو سے مرجئہ کے نزدیک ایمان مرکب ہوگا۔ ایمان کے مرکب ہونے کے اعتبار سے مسالک ومذاہب: (1) مُرجِئہ: ایمان، اقرار باللسان اور تصدیق بالجنان کا نام ہے۔ (2) احناف: احناف کا مشہور قول یہ ہے کہ ایمان اقرار باللسان اور تصدیق بالجنان کا نام ہے۔ (3) معتزلہ وخوارج: معتزلہ اورخارجیوں کے نزدیک ایمان، اقرار باللسان، تصدیق بالجنان اور عمل بالارکان کا نام ہے، یعنی اعمال ایمان کا جزا اور حصہ ہیں۔ (4) امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ، تمام محدثین اور سلف امت کے نزدیک: ایمان اقرار باللسان تصدیق بالجنان اور عمل بالارکان کا نام ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے امام ابو حنیفہ کا مسلک بھی یہی تسلیم کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: امام ابو حنیفہ نے کلام سلف کی تحلیل کرکے بتلا دیا کہ ان کے نزدیک ایمان اعتقاد اور قول وعمل سب کے مجموعہ کا نام ہے۔ لیکن اس مجموعہ میں کچھ اصول ہیں اور کچھ فروع، اصل ایمان جو مدار نجات ہے وہ تصدیق بالجنان اور اقرار باللسان ہے۔ (فضل الباری: 1/267) مرجئہ اور احناف میں فرق: مرجئہ کے نزدیک اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ کہتے ہیں: "لَا یَضُرُّ مَعَ الإِیْمَانِ مَعْصِیَةٌ کَمَا لا یَنْفَعُ مَعَ الْکُفْر طَاعَة" ”ایمان کی موجودگی میں گناہ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، جس طرح کفر کے ساتھ کوئی اطاعت مفید نہیں ہے“ لیکن احناف کے نزدیک اعمال، ایمان کا ثمرہ، تقاضا اور مطالبہ ہیں، ان کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا۔ اس لیے مرجئہ کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب، عذاب سے دوچار نہیں ہوگا، اس کا ایمان کامل ہے، لیکن احناف کے نزدیک اگر گناہ کبیرہ کے مرتکب نے توبہ کی، یا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف نہ فرمایا، تو وہ دوزخ میں جائے گا۔ گویا ایمان کامل کی صورت میں انسان سیدھا جنت میں داخل ہوگا، وہ منجی عن النار ہے، آگ سے تحفظ وپناہ دینے والا ہے، اگر گناہ وکبیرہ کا مرتکب ہوا تو یہ منجی عن الخلود فی النار ہے، کہ عذاب بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکل آئے گا۔ گویا احناف کے نزدیک اعمال مطلوب ہیں، اگرچہ ایمان کا حصہ نہیں ہیں۔ معتزلہ وخوارج اور سلف امت میں فرق: معتزلہ کے نزدیک اعمال، ایمان کا ایسا جز ہیں کہ اگر یہ نہ ہوں تو ایمان ختم ہو جاتا ہے، یعنی گناہ کبیرہ کا مرتکب مومن نہیں ہے، اگرچہ وہ اس کو کافر بھی نہیں کہتے، لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخی قرار دیتے ہیں اور اس کو فاسق کا نام دیتے ہیں۔ خارجیوں کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دوزخ میں جائے گا۔ سلف امت، ائمہ اور محدثین کے نزدیک ایمان اگرچہ تین چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے لیکن تینوں اجزا کی حیثیت برابر نہیں ہے، اس لیے عمل بد یا گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا، ہاں اس کے ایمان میں نقص اور کمی پیدا ہوجاتی ہے، اس لیے وہ مومن فاسق کہلاتا ہے، یعنی مومن تو ہے لیکن گناہ گار، اس لیے وہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے معاف نہ کیا تو سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکل کر جنت میں آجائے گا۔ احناف اور باقی ائمہ ومحدثین میں فرق: (1) احناف کے نزدیک: اعمال حقیقت ایمان میں داخل نہیں ہیں، اس لیے ایمان کا جز یا حصہ نہیں۔ محدثین اور باقی ائمہ کے نزدیک: اعمال، ایمان کی حقیقت میں داخل ہیں، اس لیے اس کا حصہ اورجز ہیں، جس طرح اغصان اور اوراق درخت کا حصہ اور جز ہیں انسان کے ہاتھ، پاؤں اس کا حصہ اور جزء ہیں، لیکن ان کے کٹنے سے درخت اور انسان ختم نہیں ہوتا۔ (2) احناف کے نزدیک: ایمان میں کی وبیشی نہیں ہوتی، محدثین اور باقی ائمہ کے نزدیک ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے جس طرح درخت کے اغصان اور اوراق کٹنے سے اس میں کمی ونقص پیدا ہوتا ہے، اگر اس کی شاخیں موجود ہوں تووہ کامل ہوتا ہے یا بعض اعضاء جس طرح انسان کے لیے اعضاء کٹنے سے نقص پیدا ہوتا ہے، اور اعضاء وجوارح مکمل ہوں تووہ کامل ہوتا ہے، اسی طرح اعمال میں کوتاہی سے ایمان گھٹتا ہے اور اعمال صالحہ کرنے سے ایمان بڑھتا ہے، قرآن وسنت کی نصوص ائمہ ثلاثہ اور محدثین کے موقف کی مؤید ہیں اور یہی نظریہ درست ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 152
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 153
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ایمان کے ستّر سے اوپر یا ساٹھ سے زائد شعبے ہیں، سب سے اعلیٰ اور افضل شاخ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا اقرار اور اس کا نچلا درجہ کسی اذیت اور تکلیف دینے والی چیز کا راستہ سے ہٹانا ہے اور حیاء ایمان کی ایک اہم شاخ ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:153]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : إِمَاطَةُ الْأَذَى: ہر وہ چیز جو انسان کے لیے تکلیف اور اذیت کا باعث ہو، یعنی گندگی یا پتھر، کانٹا، وغیرہ اس چیز کو ایمان کا ادنیٰ (نچلا درجہ) دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوا ہر نیک عمل، وہ ایمان کی شاخ اور جز ہے۔ فوائد ومسائل: حیاء کا لغوی معنی: طبیعت انسانی کے اندر بری، ناپسندیدہ، قابل عیب یا قابل ملامت چیز کے ارتکاب سے جو انقباض اور شکسگی طبیعت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کو حیاء کہتے ہیں۔ حیاء شرعی: انسان کے اندر وہ ملکہ اور خلق، جو انسان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ کسی برائی کا ارتکاب نہ کرے اور کسی صاحب حق کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی اور تقصیر نہ کرے۔ اس طرح حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی اساس وبنیاد حیاء وشرم ہے، جو ان کو ہر اطاعت کے کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور ہر معصیت سے بچنے کی ہمت بخشتا ہے، اس کو ایمان کے شعبوں میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 153
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:9
9. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: ”ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:9]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے امورایمان کی وضاحت کے لیے پہلے قرآنی آیات کا حوالہ دیا پھر حدیث نبوی کا ذکر فرمایا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ امورایمان وہ چیزیں ہوسکتی ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں، نیز اس حدیث میں ایمان کو درخت سے تشبیہ دے کر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس درخت کی جڑ کلمہ طیبہ لا إله إلا الله ہے۔ اس کے علاوہ دیگر امور ایمان اس کی شاخیں ہیں۔ اس سے مرجیہ کی تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے تعلق قراردیتے ہیں حالانکہ درخت کی جڑ اور اس کی ٹہنیوں کے درمیان ایک قدرتی ربط ہوتا ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ نہیں کہا جاسکتا۔ جڑ قائم ہے تو پتے اور ٹہنیاں بھی قائم ہیں، اگر جڑ تازہ نہیں تو پتے اور ٹہنیاں بھی مرجھا جاتی ہیں۔ شجر ایمان کی جڑ عقیدہ توحید ہے اور اعمال صالحہ و اخلاق فاضلہ اس کے برگ وبار ہیں۔ اس حدیث سے ایمان اور اعمال صالحہ کا باہمی تعلق اور ایمان کی کمی بیشی ہردو امور ثابت ہوتےہیں۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ ان شعبوں میں سب سے اعلیٰ شعبہ ”لا إله إلا الله“ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ، راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 153(35) اس روایت سے ادنیٰ اور اعلیٰ کی تعيین تو ہوگئی لیکن فروع ایمان کی اصل تعداد متعین نہیں ہوئی۔ اس کے متعلق امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ(مذکورہ) حدیث کا معنی سمجھنا چاہا اور میں نے طاعات کو شمار کرنا شروع کیا تو وہ حدیث میں بیان کردہ تعداد سے زائد تھیں، پھر میں نے احادیث کے اعتبار سے نظر ڈالی اور صرف ان اعمال کو شمار کیا جن پر ایمان کا اطلاق کیا گیا تھا توتعداد کم رہی، پھرقرآن کریم میں بیان کردہ ان اعمال کو گنا جن پر ایمان کا لفظ بولا گیا تھا تو تعداد پھر بھی کم رہی، آخر کار قرآن وحدیث کی وہ نیکیاں شمار کیں جو ایمان کے ساتھ مذکور تھیں اور مکررات کو حذف کردیا تو تعداد 69 نکلی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ (شرح الکرماني: 84/1) 3۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مستقل ایک کتاب "شعب الایمان" کو مرتب فرمایا ہے جو مطبوع ہے۔ اس میں انہوں نے امور ایمان کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امور ایمان کو اعمال قلب، اعمال لسان اور اعمال بدن پر تقسیم کرتے ہوئے اعمال قلب کی چوبیس (24) شاخیں، اعمال لسان کی سات(7) اور اعمال بدن کی اڑتیس(38) شاخیں تفصیل سے بیان فرمائی ہیں جن کا مجموعہ 69 بن جاتا ہے۔ (فتح الباري: 73/1) لیکن ان تمام شاخوں کی بنیاد ایک ہی چیز ہے یعنی علم وعمل سے اپنے نفس کی تہذیب بایں طور کی جائے کہ اس کی دنیا وآخرت باعث رشک ہو، وہ اس طرح کہ صداقت حق کا عقیدہ رکھے اورعمل وکردار میں سلامت روی اور مستقل مزاجی اختیار کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾”جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے،پھر اس پر قائم رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ “(الأحقاف 46: 13) حدیث میں ہے کہ سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی جامع بات بتائیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپ نےفرمایا: ”کہہ: میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیارکر۔ “(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 159(38) 4۔ حیا طبیعت کے انکسار کا نام ہے جو کسی ایسے خیال یا فعل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جوعرفاً یا شرعاً مذموم سمجھا جاتا ہو، یعنی ایسا کام نہ کیا جائے جس کے کرنے سے شرعی سبکی ہو۔ یہی وہ شرعی حیا ہے، جو انسان کو اللہ کی بندگی اور حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی حیا انسان کو برے کاموں سے روکتی ہے حدیث میں ہے کہ حیا خیر کی چیز ہے اور خیر ہی کو لاتی ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 156(37) حدیث میں اس قسم کی حیا کو ایمان کی شاخ قراردیاگیاہے۔ 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کاخصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ جو اخلاق حسنہ ایمان کے لیے مبادی کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں حیا بھی ہے بلکہ حیا ایمان کا سرچشمہ ہے کیونکہ انسان جب اپنے وجود اور اپنی صفات کمال پر غور کرتا ہے تو اسے اللہ پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ اگرانسان ان انعامات واحسانات کے باوجود، جو اللہ نے اس پر فرمائے ہیں، اللہ کی ذات پر ایمان نہیں لاتا تو یہ اس کی بہت بڑی بے حیائی ہے، گویا ان احسانات کے پیش نظر اللہ پر ایمان لانا حیا ہی کا نتیجہ ہے۔ یعنی حیا پہلے ایمان کا سبب بنی، ایمان لانے کے بعد پھر ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ ثابت ہوئی کیونکہ انعامات کا مسلسل شکریہ ادا کرتے رہنا بھی حیا ہی کا نتیجہ ہے۔ اس بنا پر صفت حیا کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا، نیز (شُعْبةٌ) میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، گویا عبارت یوں ہے: اَلـحَيَاءُ شُعْبَةٌ عَظِيمَةُ ”حیا ایمان کا بڑا شعبہ ہے“ یعنی حیا ایک ایسا شعبہ ہے جس پر بہت سے شعبے مرتب ہوتے ہیں بلکہ حیا ان کے وجود کا سبب بنتی ہے۔ حدیث میں اس کی افادیت کو ایک دوسرے انداز سے بیان کیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”جب تم میں حیا نہیں ہے تو جو چاہو کرتے رہو۔ “(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6120) ”بے حیا باش وہرچہ خواہی کن۔ “
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 9
اس سند سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔
۱؎: معلوم ہوا کہ عمل کے حساب سے ایمان کے مختلف مراتب و درجات ہیں، یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان اور عمل ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2614M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12854) (شاذ) (کیوں کہ پچھلی اصح حدیث کے مخالف ہے)»
قال الشيخ الألباني: (حديث: " الإيمان بضع وسبعون ... ") صحيح، (حديث: " الإيمان أربعة وستون بابا ") شاذ بهذا اللفظ (حديث: " الإيمان بضع وسبعون.... ") ، ابن ماجة (57) ، (حديث: " الإيمان أربعة وستون بابا ") // ضعيف الجامع الصغير (2303) //