حنظلہ اسیدی رضی الله عنہ سے روایت ہے (یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے)، وہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس سے روتے ہوئے گزرا تو انہوں نے کہا: حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: ابوبکر! حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے (بات یہ ہے) کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں، اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ چلو ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، چنانچہ ہم دونوں چل پڑے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ”حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے، جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں تو ان وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حنظلہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں، تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2514]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 2452، 2514 (صحیح) (اور اس کے شاہد کے لیے ملاحظہ ہو: 2526)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں صحابہ کرام کے زہد و ورع اور تقویٰ کا ذکر ہے، معلوم ہوا کہ انسان کی حالت و کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، بلکہ اس میں تغیر ہوتا رہتا ہے، اس لیے انسان جب بھی غفلت کا شکار ہو تو اسے بکثرت ذکر الٰہی کرنا چاہیئے، اور اس حالت کو جس میں غفلت طاری ہو نفاق پر نہیں محمول کرنا چاہیئے، کیونکہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت و کیفیت کا اپنے آپ کو مکلف بنا کر رکھے یہ ممکن نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود ایک ہی آدمی کی ایمانی کیفیت وقتاً فوقتا گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2514
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں صحابہ کرام کے زہد و ورع اور تقوی کا ذکر ہے، معلوم ہواکہ انسان کی حالت و کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، بلکہ اس میں تغیر ہوتا رہتا ہے، اس لیے انسان جب بھی غفلت کا شکار ہو تو اسے بکثرت ذکر الٰہی کرنا چاہیے، اور اس حالت کو جس میں غفلت طاری ہو نفاق پرنہیں محمول کرنا چاہیے، کیوں کہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت و کیفیت کا اپنے آپ کو مکلف بنا کر رکھے یہ ممکن نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود ایک ہی آدمی کی ایمانی کیفیت وقتا فوقتا گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
نوٹ: (اس حدیث کے شاہد کے لیے ملاحظہ ہو: 2526)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2514
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4239
´نیک کام کو ہمیشہ کرنے کی فضیلت کا بیان۔` حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور ہم نے جنت اور جہنم کا ذکر اس طرح کیا گویا ہم اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہے ہیں، پھر میں اپنے اہل و عیال کے پاس چلا گیا، اور ان کے ساتھ ہنسا کھیلا، پھر مجھے وہ کیفیت یاد آئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، میں گھر سے نکلا، راستے میں مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ مل گئے، میں نے کہا: میں منافق ہو گیا، میں منافق ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی ہمارا بھی حال ہے، حنظلہ رضی اللہ عنہ گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کیفیت کا ذکر کیا، تو آ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4239]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اپنے ایمان اور قلبی کیفیات کے بارے میں بہت محتاط رہتے تھے اور ڈرتے تھے کہ کسی نادانستہ غلطی کی وجہ سے ان کے درجات میں کمی نہ آجائے۔
(2) دل کی کیفیات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
(3) بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے دنیا کے معاملات میں مثغول ہونا شرعا مطلوب ہے۔
(4) انسان کو فرشتوں سے (بعض لحاظ سے) افضل قراردیا گیا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ایسے حالات میں گھرا ہوا ہے۔ جو اسے اللہ سے غافل کرتے ہیں۔ پھر بھی وہ اللہ کو یاد کرتا اور اس کی عبادت کرتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4239
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2452
´باب:۔۔۔` حنظلہ اسیدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری وہی کیفیت رہے، جیسی میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے پروں سے تم پر سایہ کریں“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2452]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ نیک لوگوں کی مجلس میں رہنے سے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا ہوتاہے، آخرت یاد آتی ہے، اور دنیا کی چاہت کم ہوجاتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2452
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6966
حضرت حنظلہ اسیدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبوں میں سے تھے، بیان کرتے ہیں۔مجھے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے اور پوچھا اے حنظلہ! کیسے ہو؟ میں نے کہا حنظلہ منافق بن گیا انھوں نے کہا سبحان اللہ!کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا،ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود ہوتے ہیں آپ دوزخ اور جنت یاد دلاتے ہیں حتی کہ وہ گویا ہمیں نظر آنے لگتے ہیں اور جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے جاتے ہیں اور اپنی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6966]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: عافسنا: ہم گھل مل جاتے ہیں، مشغول ہوجاتے ہیں، الضيعات، ضيعة کی جمع ہے، جاگیر، زمین یا کاروبار۔ فوائد ومسائل: فرشتوں کا وظیفہ اور کام ہر وقت بغیر کسی سستی اور کمزوری کے ذکروفکر میں مشغول رہنا ہے اور شیطان کا وظیفہ اور کام ہر وقت شرو فساد میں لگے رہنا ہےاور انسان بسا اوقات ذکر و فکر میں مشغول رہتا ہے اور بعض اوقات ضروریات زندگی کے حصول میں وقت گزارتا ہے، ہر وقت ذکرو فکر میں مشغول رہنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے، اس لیے ہر وقت ایک کیفیت اور حالت کا نہ رہنا، نفاق نہیں ہے، کاروبار حیات میں مشغول ہونا بھی اس کا فطرتی اور طبعی تقاضا ہے، بلکہ امور زندگی میں ہدایات الہٰی کو ملحوظ رکھنا بھی ذکر ہے، ہاں اسباب زندگی کے حصول کے وقت اللہ کی نافرمانی سے بچنا ضروری ہے۔