الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
66. باب مِنْهُ
66. باب: جساسہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2253
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَضَحِكَ، فَقَالَ: إِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيّ حَدَّثَنِي بِحَدِيثٍ فَفَرِحْتُ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ، حَدَّثَنِي أَنَّ " نَاسًا مِنْ أَهْلِ فِلَسْطِينَ رَكِبُوا سَفِينَةً فِي الْبَحْرِ فَجَالَتْ بِهِمْ، حَتَّى قَذَفَتْهُمْ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ، فَإِذَا هُمْ بِدَابَّةٍ لَبَّاسَةٍ نَاشِرَةٍ شَعْرَهَا، فَقَالُوا: مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، قَالُوا: فَأَخْبِرِينَا، قَالَتْ: لَا أُخْبِرُكُمْ وَلَا أَسْتَخْبِرُكُمْ، وَلَكِنْ ائْتُوا أَقْصَى الْقَرْيَةِ فَإِنَّ ثَمَّ مَنْ يُخْبِرُكُمْ وَيَسْتَخْبِرُكُمْ، فَأَتَيْنَا أَقْصَى الْقَرْيَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُوثَقٌ بِسِلْسِلَةٍ، فَقَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ، قُلْنَا: مَلْأَى تَدْفُقُ، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنِ الْبُحَيْرَةِ، قُلْنَا: مَلْأَى تَدْفُقُ، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ الَّذِي بَيْنَ الْأُرْدُنِّ وَفِلَسْطِينَ هَلْ أَطْعَمَ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنِ النَّبِيِّ هَلْ بُعِثَ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَخْبِرُونِي كَيْفَ النَّاسُ إِلَيْهِ؟ قُلْنَا: سِرَاعٌ، قَالَ: فَنَزَّى نَزْوَةً حَتَّى كَادَ، قُلْنَا: فَمَا أَنْتَ؟ قَالَ: إِنَّهُ الدَّجَّالُ، وَإِنَّهُ يَدْخُلُ الْأَمْصَارَ كُلَّهَا إِلَّا طَيْبَةَ، وَطَيْبَةُ: الْمَدِينَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ.
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے، ہنسے پھر فرمایا: تمیم داری نے مجھ سے ایک بات بیان کی ہے جس سے میں بےحد خوش ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم سے بھی بیان کروں، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوئے، وہ کشتی (طوفان میں پڑنے کی وجہ سے) کسی اور طرف چلی گئی حتیٰ کہ انہیں سمندر کے کسی جزیرہ میں ڈال دیا، اچانک ان لوگوں نے بہت کپڑے پہنے ایک رینگنے والی چیز کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، ان لوگوں نے پوچھا: تم کیا ہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ (جاسوسی کرنے والی) ہوں، ان لوگوں نے کہا: ہمیں (اپنے بارے میں) بتاؤ، اس نے کہا: نہ میں تم لوگوں کو کچھ بتاؤں گی اور نہ ہی تم لوگوں سے کچھ پوچھوں گی، البتہ تم لوگ بستی کے آخر میں جاؤ وہاں ایک آدمی ہے، جو تم کو بتائے گا اور تم سے پوچھے گا، چنانچہ ہم لوگ بستی کے آخر میں آئے تو وہاں ایک آدمی زنجیر میں بندھا ہوا تھا اس نے کہا: مجھے زغر (ملک شام کی ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: بھرا ہوا ہے اور چھلک رہا ہے، اس نے کہا: مجھے بیسان کی کھجوروں کے بارے میں بتاؤ جو اردن اور فلسطین کے درمیان ہے، کیا اس میں پھل آیا؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: مجھے نبی (آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں بتاؤ کیا وہ مبعوث ہوئے؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: بتاؤ لوگ ان کی طرف کیسے جاتے ہیں؟ ہم نے کہا: تیزی سے، اس نے زور سے چھلانگ لگائی حتیٰ کہ آزاد ہونے کے قریب ہو گیا، ہم نے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ وہ دجال ہے اور طیبہ کے علاوہ تمام شہروں میں داخل ہو گا، طیبہ سے مراد مدینہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث شعبہ کے واسطہ سے قتادہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اسے کئی لوگوں نے شعبی کے واسطہ سے فاطمہ بنت قیس سے روایت کیا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2253]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن 24 (2942)، سنن ابی داود/ الملاحم 15 (4326)، سنن ابن ماجہ/الفتن 33 (4074) (تحفة الأشراف: 18024)، و مسند احمد (6/374، 418) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: حدیث جساسہ کی تفصیل کے لیے صحیح مسلم میں کتاب الفتن کا مطالعہ کریں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح قصة نزول عيسى عليه السلام

   صحيح مسلمتميما الداري كان رجلا نصرانيا فجاء فبايع وأسلم وحدثني حديثا وافق الذي كنت أحدثكم عن مسيح الدجال حدثني أنه ركب في سفينة بحرية مع ثلاثين رجلا من لخم وجذام فلعب بهم الموج شهرا في البحر ثم أرفئوا إلى جزيرة في البحر حتى مغرب الشمس فجلسوا في أقرب السفينة فدخلوا
   جامع الترمذيناسا من أهل فلسطين ركبوا سفينة في البحر فجالت بهم حتى قذفتهم في جزيرة من جزائر البحر فإذا هم بدابة لباسة ناشرة شعرها فقالوا ما أنت قالت أنا الجساسة قالوا فأخبرينا قالت لا أخبركم ولا أستخبركم ولكن ائتوا أقصى القرية فإن ثم من يخبركم ويستخبركم فأتينا أقصى ال
   سنن ابن ماجهتميما الداري أتاني فأخبرني خبرا منعني القيلولة من الفرح وقرة العين فأحببت أن أنشر عليكم فرح نبيكم ألا إن ابن عم لتميم الداري أخبرني أن الريح ألجأتهم إلى جزيرة لا يعرفونها فقعدوا في قوارب السفينة فخرجوا فيها فإذا هم بشيء أهدب أسود قالوا له ما أنت قال أنا ا

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2253 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2253  
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
حدیث جسّاسہ کی تفصیل کے لیے صحیح مسلم میں کتاب الفتن کا مطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2253   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4074  
´فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے، لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی، کچھ لوگ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! میں منبر پر اس لیے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی بات کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی (جس سے م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4074]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہمارے فاضل محقق نے خط کشیدہ جملوں کے سوا باقی روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی حدیث (2942)
اس سے کفایت کرتی ہے۔
شیخ البانیؒ نے بھی ان خط کشیدہ الفاظ کے سوا باقی روایت کو صحیح قراردیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت خط کشیدہ الفاظ کے سوا قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللہ اعلم۔

(2)
رسول اللہﷺ فجر کے بعد بعض اوقات ضروری مسائل بیان فرما دیا کرتے تھے مثلاً:
خوابوں کی تعبیر وغیرہ۔
لیکن منبر پر بیٹھ کر فجر کے بعد خطبہ دینے کا معمول نہیں تھا۔

(3)
رسول اللہ ﷺ کے خوش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺ بھی دجال سے ڈرایا کرتے تھے۔
حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس کی مزید تصدیق ہوگئی۔
صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں:
اس نے مجھے ایک بات سنائی جو اس کے موافق ہے جو میں تمھیں مسیح دجال کے بارے میں بتایا کرتا تھا۔ (صحيح مسلم، الفتن، باب قصة الجساسة، حديث: 2942)

(4)
جساسہ کے بارے میں صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں:
اس کے جسم پر اتنے بال تھے کہ بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کے آگے پیچھے کا پتہ نہیں چلتا تھا۔

(5)
عمان اور بیسان شام کے دو شہر ہیں عمان موجودہ اردن کا دارالحکومت ہے۔

(6)
زغر شام کا ایک شہر ہے۔
اس کے قریب ایک چشمہ ہے۔
بحیرہ طبریہ شام میں ہے۔

(7)
مدینہ منورہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا لیکن مدینے میں تین بار زلزلہ آئے گا تو مدینہ میں موجود تمام کافر اور منافق مدینہ سے نکل کر دجال سے جا ملیں گے۔ (صحیح البخاري، الفتن، باب ذکر الدجال، حدیث: 7124)

(8)
دجال مکہ مکرمہ میں بھی داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، الفتن، باب قصة الجساسة، حدیث: 2942)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4074   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7386  
امام عامر بن شراحیل شعبی،جس کاتعلق ہمدان کے شعب سے ہے،بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ سید ہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا،وہ اولین ہجرت کرنے والوں میں سے تھیں کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(بلاواسطہ) سنی ہو۔وہ بولیں کہ اچھا، اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں بیان کرو۔ سیدہ فاطمہ ؓ نے کہا کہ میں نے ابن مغیرہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7386]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
)
جساسه:
جاسوسی کرنے والی،
کیونکہ وہ دجال کے لیے جاسوسی کرتی ہے۔
(2)
فاصيب في اول الجهاد:
وہ پہلے جہاد میں شہید ہوگیا،
یہ راوی کا وہم ہے،
کیونکہ وہ حضرت علی کے ساتھ یمن گیا تھا،
وہ وہاں فوت ہوا اور بقول بعض حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوا،
ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ پہلے جہاد میں زخمی ہواہو،
لیکن فوت بعد میں ہوا ہو اور آپ کے ساتھ جنگ میں حصہ لینا قابل قدر عمل ہے اور اس نے حضرت فاطمہ کو وقتاًفوقتاًتین طلاقیں دےدی تھیں،
اس لیے عدت کے ختم ہونے کے بعد،
حضرت معاویہ،
ابوجہم اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم نے شادی کا پیغام بھیجا تھا اس لیے یہ کہنا کہ میں اس کی بیوہ ہوگئی درست نہیں،
اس نے اسےوقتاًفوقتاًتین طلاقیں دی تھی اور یمن سے آخری طلاق بھیجی تھی اور حضرت علی دس ہجری میں یمن گئے تھے حضرت عبداللہ کے باپ کا نام عمرو ہے اور ماں کا نام ام مکتوم ہے،
اس لیے ابن ام مکتوم،
عبداللہ کی صفت ہے،
عمرو کی صفت نہیں ہے۔
چونکہ وہ بھی ان کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے،
اس لیے ان کو چچا زاد کا نام دیا گیا۔
(3)
الصلاة جامعة:
دونوں لفظ منسوب ہیں،
پہلا فعل محذوف کا مفعول ہے اور دوسرا حال ہے،
یادونوں مرفوع ہیں،
یعنی هذاه الصلاةجامعة،
یاهذه الصلاة مرفوع ہے اور جامعة حال ہے اور اس حدیث سے تثویب پر (اذان کے بعد پھر اعلان)
استدلال درست نہیں ہے،
کیونکہ یہ کلمات اس وقت کہے جاتے ہیں،
جب لوگوں کو ایسے وقت میں مسجد میں جمع کرناہو،
جو نماز کا وقت نہیں ہے اور حضرت تمیم داری 9ھ کو مسلمان ہوئے تھے،
جو اہل فلسطین سے راہب اور عابد انسان تھے اور انھی کو یہ شرف حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حدیث جساسہ روایت کی ہے۔
(4)
ارفاوا:
وہ لنگر انداز ہوئے،
مرفا،
بندرگاہ،
(5)
اقرب:
قارب کی جمع ہے،
جو قیاسی روسے قعراب ہے،
ڈونگا،
چھوٹی کشتی (6)
اهلب،
بہت بالوں والا،
اس لیے کثیر الشعر اس کی تفسیر ہے۔
(7)
دير:
راہب کی کٹیا،
یہاں مراد محل ہے،
(8)
الاشواق:
شوقین،
بہت شوق رکھنے والا۔
(9)
وثاق:
قیدوبند،
بندھن،
(10)
اغتلم:
حد سے تجاوز کرجانا،
یعنی وہ طوفان خیز تھا۔
(11)
بيسان:
یمامہ کا ایک علاقہ جہاں نخلستان بہت ہیں،
اردن کا ایک علاقہ بھی ہے،
لیکن وہاں اتنی زیادہ کھجوریں نہیں ہیں۔
(12)
زغر:
یہ شام کے علاقہ کی ایک بستی ہے،
جو بقول ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت لوط علیہ السلام کی چھوٹی بیٹی کا نام ہے،
وہ یہاں دفن ہے۔
(13)
ماهو:
ما تاکید کے لیے زائدہ ہے کہ مشرق کی جناب ہونا یقینی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7386