كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے، ہنسے پھر فرمایا:
”تمیم داری نے مجھ سے ایک بات بیان کی ہے جس سے میں بےحد خوش ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم سے بھی بیان کروں، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوئے، وہ کشتی
(طوفان میں پڑنے کی وجہ سے) کسی اور طرف چلی گئی حتیٰ کہ انہیں سمندر کے کسی جزیرہ میں ڈال دیا، اچانک ان لوگوں نے بہت کپڑے پہنے ایک رینگنے والی چیز کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، ان لوگوں نے پوچھا: تم کیا ہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ
(جاسوسی کرنے والی) ہوں، ان لوگوں نے کہا: ہمیں
(اپنے بارے میں) بتاؤ، اس نے کہا: نہ میں تم لوگوں کو کچھ بتاؤں گی اور نہ ہی تم لوگوں سے کچھ پوچھوں گی، البتہ تم لوگ بستی کے آخر میں جاؤ وہاں ایک آدمی ہے، جو تم کو بتائے گا اور تم سے پوچھے گا، چنانچہ ہم لوگ بستی کے آخر میں آئے تو وہاں ایک آدمی زنجیر میں بندھا ہوا تھا اس نے کہا: مجھے زغر
(ملک شام کی ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: بھرا ہوا ہے اور چھلک رہا ہے، اس نے کہا: مجھے بیسان کی کھجوروں کے بارے میں بتاؤ جو اردن اور فلسطین کے درمیان ہے، کیا اس میں پھل آیا؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: مجھے نبی
(آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں بتاؤ کیا وہ مبعوث ہوئے؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: بتاؤ لوگ ان کی طرف کیسے جاتے ہیں؟ ہم نے کہا: تیزی سے، اس نے زور سے چھلانگ لگائی حتیٰ کہ آزاد ہونے کے قریب ہو گیا، ہم نے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ وہ دجال ہے اور طیبہ کے علاوہ تمام شہروں میں داخل ہو گا، طیبہ سے مراد مدینہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث شعبہ کے واسطہ سے قتادہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اسے کئی لوگوں نے شعبی کے واسطہ سے فاطمہ بنت قیس سے روایت کیا ہے
۱؎۔
[سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2253]