فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے، لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی، کچھ لوگ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں منبر پر اس لیے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی بات کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی (جس سے مجھے اتنی مسرت ہوئی کہ خوشی کی وجہ سے میں قیلولہ نہ کر سکا، میں نے چاہا کہ تمہارے نبی کی خوشی کو تم پر بھی ظاہر کر دوں)، سنو! تمیم داری کے ایک چچا زاد بھائی نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ (ایک سمندری سفر میں) ہوا ان کو ایک جزیرے کی طرف لے گئی جس کو وہ پہچانتے نہ تھے، یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر اس جزیرے میں گئے، انہیں وہاں ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی، جس کے جسم پر کثرت سے بال تھے، انہوں نے اس سے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ (دجال کی جاسوس) ہوں، ان لوگوں نے کہا: تو ہمیں کچھ بتا، اس نے کہا: (نہ میں تمہیں کچھ بتاؤں گی، نہ کچھ تم سے پوچھوں گی)، لیکن تم اس دیر (راہبوں کے مسکن) میں جسے تم دیکھ رہے ہو جاؤ، وہاں ایک شخص ہے جو اس بات کا خواہشمند ہے کہ تم اسے خبر بتاؤ اور وہ تمہیں بتائے، کہا: ٹھیک ہے، یہ سن کر وہ لوگ اس کے پاس آئے، اس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ایک بوڑھا شخص زنجیروں میں سخت جکڑا ہوا (رنج و غم کا اظہار کر رہا ہے، اور اپنا دکھ درد سنانے کے لیے بے چین ہے) تو اس نے ان لوگوں سے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: شام سے، اس نے پوچھا: عرب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس نے پوچھا: اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی محمد کا) جو تم لوگوں میں ظاہر ہوا؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، اس نے قوم سے دشمنی کی، پھر اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا کیا، تو آج ان میں اجتماعیت ہے، ان کا معبود ایک ہے، ان کا دین ایک ہے، پھر اس نے پوچھا: زغر (شام میں ایک گاؤں) کے چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، لوگ اس سے اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں، اور پینے کے لیے بھی اس میں سے پانی لیتے ہیں، پھر اس نے پوچھا: (عمان اور بیسان (ملک شام کے دو شہر کے درمیان) کھجور کے درختوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہر سال وہ اپنا پھل کھلا رہے ہیں، اس نے پوچھا: طبریہ کے نالے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اس کے دونوں کناروں پر پانی خوب زور و شور سے بہ رہا ہے، یہ سن کر اس شخص نے تین آہیں بھریں) پھر کہا: اگر میں اس قید سے چھوٹا تو میں اپنے پاؤں سے چل کر زمین کے چپہ چپہ کا گشت لگاؤں گا، کوئی گوشہ مجھ سے باقی نہ رہے گا سوائے طیبہ (مدینہ) کے، وہاں میرے جانے کی کوئی سبیل نہ ہو گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی، طیبہ یہی شہر (مدینہ) ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کے ہر تنگ و کشادہ اور نیچے اونچے راستوں پر ننگی تلوار لیے ایک فرشتہ متعین ہے جو قیامت تک پہرہ دیتا رہے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4074]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم 15 (4326، 4327)، سنن الترمذی/الفتن 66 (2253)، (تحفة الأشراف: 18024)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/373، 374، 411، 412، 415، 416، 418) (صحیح)» (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث صحیح ہے، صرف وہ جملے ضعیف ہیں، جو اس طرح گھیر دئے گئے ہیں، صحیح مسلم کتاب الفتن 24؍ 2942 میں یہ حدیث ہلالین میں محصور جملوں کے علاوہ آئی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔
وضاحت: ۱؎: اور دجال کو وہاں آنے سے روکے گا، دوسری روایت میں ہے کہ دجال احد پہاڑ تک آئے گا، پھر ملائکہ اس کا رخ پھیر دیں گے، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ زنجیر میں جکڑے اس شخص نے کہا: مجھ سے امیوں (یعنی ان پڑھوں) کے نبی کا حال بیان کرو، ہم نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر مدینہ گئے ہیں، اس نے کہا:کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا: ہاں، لڑے، اس نے کہا: پھر نبی نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے اسے بتلایا کہ وہ اپنے گرد و پیش عربوں پر غالب آ گئے ہیں اور انہوں نے اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت اختیار کر لی ہے، اس نے پوچھا کیا یہ بات ہو چکی ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، یہ بات ہو چکی، اس نے کہا: سن لو! یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اس کے رسول کے تابعدار ہوں، البتہ میں تم سے اپنا حال بیان کرتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، اور وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے خروج کی اجازت (اللہ کی طرف سے) دے دی جائے گی، البتہ اس میں یہ ہے کہ مکہ اور طیبہ (مدینہ) کو چھوڑ کر میں کوئی ایسی بستی نہیں چھوڑوں گا جہاں میں نہ جاؤں، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں، جب میں ان دونوں میں کہیں سے جانا چاہوں گا تو ایک فرشتہ ننگی تلوار لے کر مجھے اس سے روکے گا، اور وہاں ہر راستے پر چوکیدار فرشتے ہیں، یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی منبر پر ماری، اور فرمایا: طیبہ یہی ہے، یعنی مدینہ اور میں نے تم سے دجال کا حال نہیں بیان کیا تھا کہ وہ مدینہ میں نہ آئے گا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا تھا پھر آپ نے فرمایا: شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں، نہیں، بلکہ مشرق کی طرف اور ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن: باب: قصۃ الجساسۃ)
قال الشيخ الألباني: ضعيف السند صحيح المتن دون الجمل التالية منعني القيلولة من الفرح وقرة العين فأحببت أن أنشر عليكم فرح نبيكم , ما أنا بمخبرتكم شيئا ولا سائلتكم , يظهر الحزن شديد التشكي , بين عمان , فزفر ثلاث زفرات , إلى هذا ينتهي فرحي
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (4327) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 522
تميما الداري كان رجلا نصرانيا فجاء فبايع وأسلم وحدثني حديثا وافق الذي كنت أحدثكم عن مسيح الدجال حدثني أنه ركب في سفينة بحرية مع ثلاثين رجلا من لخم وجذام فلعب بهم الموج شهرا في البحر ثم أرفئوا إلى جزيرة في البحر حتى مغرب الشمس فجلسوا في أقرب السفينة فدخلوا
ناسا من أهل فلسطين ركبوا سفينة في البحر فجالت بهم حتى قذفتهم في جزيرة من جزائر البحر فإذا هم بدابة لباسة ناشرة شعرها فقالوا ما أنت قالت أنا الجساسة قالوا فأخبرينا قالت لا أخبركم ولا أستخبركم ولكن ائتوا أقصى القرية فإن ثم من يخبركم ويستخبركم فأتينا أقصى ال
تميما الداري أتاني فأخبرني خبرا منعني القيلولة من الفرح وقرة العين فأحببت أن أنشر عليكم فرح نبيكم ألا إن ابن عم لتميم الداري أخبرني أن الريح ألجأتهم إلى جزيرة لا يعرفونها فقعدوا في قوارب السفينة فخرجوا فيها فإذا هم بشيء أهدب أسود قالوا له ما أنت قال أنا ا
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4074
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہمارے فاضل محقق نے خط کشیدہ جملوں کے سوا باقی روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی حدیث (2942) اس سے کفایت کرتی ہے۔ شیخ البانیؒ نے بھی ان خط کشیدہ الفاظ کے سوا باقی روایت کو صحیح قراردیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت خط کشیدہ الفاظ کے سوا قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ اعلم۔
(2) رسول اللہﷺ فجر کے بعد بعض اوقات ضروری مسائل بیان فرما دیا کرتے تھے مثلاً: خوابوں کی تعبیر وغیرہ۔ لیکن منبر پر بیٹھ کر فجر کے بعد خطبہ دینے کا معمول نہیں تھا۔
(3) رسول اللہ ﷺ کے خوش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺ بھی دجال سے ڈرایا کرتے تھے۔ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس کی مزید تصدیق ہوگئی۔ صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں: اس نے مجھے ایک بات سنائی جو اس کے موافق ہے جو میں تمھیں مسیح دجال کے بارے میں بتایا کرتا تھا۔ (صحيح مسلم، الفتن، باب قصة الجساسة، حديث: 2942)
(4) جساسہ کے بارے میں صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں: اس کے جسم پر اتنے بال تھے کہ بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کے آگے پیچھے کا پتہ نہیں چلتا تھا۔
(5) عمان اور بیسان شام کے دو شہر ہیں عمان موجودہ اردن کا دارالحکومت ہے۔
(6) زغر شام کا ایک شہر ہے۔ اس کے قریب ایک چشمہ ہے۔ بحیرہ طبریہ شام میں ہے۔
(7) مدینہ منورہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا لیکن مدینے میں تین بار زلزلہ آئے گا تو مدینہ میں موجود تمام کافر اور منافق مدینہ سے نکل کر دجال سے جا ملیں گے۔ (صحیح البخاري، الفتن، باب ذکر الدجال، حدیث: 7124)
(8) دجال مکہ مکرمہ میں بھی داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم، الفتن، باب قصة الجساسة، حدیث: 2942)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4074
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2253
´جساسہ کا بیان۔` فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے، ہنسے پھر فرمایا: ”تمیم داری نے مجھ سے ایک بات بیان کی ہے جس سے میں بےحد خوش ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم سے بھی بیان کروں، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوئے، وہ کشتی (طوفان میں پڑنے کی وجہ سے) کسی اور طرف چلی گئی حتیٰ کہ انہیں سمندر کے کسی جزیرہ میں ڈال دیا، اچانک ان لوگوں نے بہت کپڑے پہنے ایک رینگنے والی چیز کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، ان لوگوں نے پوچھا: تم کیا ہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ (جاسوسی کرنے والی) ہوں، ان لوگوں نے کہا: ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2253]
اردو حاشہ: وضاحت: 1 ؎: حدیث جسّاسہ کی تفصیل کے لیے صحیح مسلم میں ”کتاب الفتن“ کا مطالعہ کریں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2253
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7386
امام عامر بن شراحیل شعبی،جس کاتعلق ہمدان کے شعب سے ہے،بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ سید ہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا،وہ اولین ہجرت کرنے والوں میں سے تھیں کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(بلاواسطہ) سنی ہو۔وہ بولیں کہ اچھا، اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں بیان کرو۔ سیدہ فاطمہ ؓ نے کہا کہ میں نے ابن مغیرہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7386]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) ) جساسه: جاسوسی کرنے والی، کیونکہ وہ دجال کے لیے جاسوسی کرتی ہے۔ (2) فاصيب في اول الجهاد: وہ پہلے جہاد میں شہید ہوگیا، یہ راوی کا وہم ہے، کیونکہ وہ حضرت علی کے ساتھ یمن گیا تھا، وہ وہاں فوت ہوا اور بقول بعض حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوا، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ پہلے جہاد میں زخمی ہواہو، لیکن فوت بعد میں ہوا ہو اور آپ کے ساتھ جنگ میں حصہ لینا قابل قدر عمل ہے اور اس نے حضرت فاطمہ کو وقتاًفوقتاًتین طلاقیں دےدی تھیں، اس لیے عدت کے ختم ہونے کے بعد، حضرت معاویہ، ابوجہم اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم نے شادی کا پیغام بھیجا تھا اس لیے یہ کہنا کہ میں اس کی بیوہ ہوگئی درست نہیں، اس نے اسےوقتاًفوقتاًتین طلاقیں دی تھی اور یمن سے آخری طلاق بھیجی تھی اور حضرت علی دس ہجری میں یمن گئے تھے حضرت عبداللہ کے باپ کا نام عمرو ہے اور ماں کا نام ام مکتوم ہے، اس لیے ابن ام مکتوم، عبداللہ کی صفت ہے، عمرو کی صفت نہیں ہے۔ چونکہ وہ بھی ان کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے ان کو چچا زاد کا نام دیا گیا۔ (3) الصلاة جامعة: دونوں لفظ منسوب ہیں، پہلا فعل محذوف کا مفعول ہے اور دوسرا حال ہے، یادونوں مرفوع ہیں، یعنی هذاه الصلاةجامعة، یاهذه الصلاة مرفوع ہے اور جامعة حال ہے اور اس حدیث سے تثویب پر (اذان کے بعد پھر اعلان) استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ یہ کلمات اس وقت کہے جاتے ہیں، جب لوگوں کو ایسے وقت میں مسجد میں جمع کرناہو، جو نماز کا وقت نہیں ہے اور حضرت تمیم داری 9ھ کو مسلمان ہوئے تھے، جو اہل فلسطین سے راہب اور عابد انسان تھے اور انھی کو یہ شرف حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حدیث جساسہ روایت کی ہے۔ (4) ارفاوا: وہ لنگر انداز ہوئے، مرفا، بندرگاہ، (5) اقرب: قارب کی جمع ہے، جو قیاسی روسے قعراب ہے، ڈونگا، چھوٹی کشتی (6) اهلب، بہت بالوں والا، اس لیے کثیر الشعر اس کی تفسیر ہے۔ (7) دير: راہب کی کٹیا، یہاں مراد محل ہے، (8) الاشواق: شوقین، بہت شوق رکھنے والا۔ (9) وثاق: قیدوبند، بندھن، (10) اغتلم: حد سے تجاوز کرجانا، یعنی وہ طوفان خیز تھا۔ (11) بيسان: یمامہ کا ایک علاقہ جہاں نخلستان بہت ہیں، اردن کا ایک علاقہ بھی ہے، لیکن وہاں اتنی زیادہ کھجوریں نہیں ہیں۔ (12) زغر: یہ شام کے علاقہ کی ایک بستی ہے، جو بقول ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت لوط علیہ السلام کی چھوٹی بیٹی کا نام ہے، وہ یہاں دفن ہے۔ (13) ماهو: ما تاکید کے لیے زائدہ ہے کہ مشرق کی جناب ہونا یقینی ہے۔