عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو عمل ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، وہ نیا شروع ہونے والا امر ہے یا ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ”ابن خطاب! وہ ایسا امر ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہ امر آسان کر دیا گیا ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے)، چنانچہ جو آدمی سعادت مندوں میں سے ہے وہ سعادت والا کام کرتا ہے اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختی والا کام کرتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، حذیفہ بن اسید، انس اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2135]
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3111
´سورۃ ہود سے بعض آیات کی تفسیر۔` عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «فمنهم شقي وسعيد»”سو ان میں کوئی بدبخت ہو گا اور کوئی نیک بخت“(ہود: ۱۰۵)، نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے نبی! پھر ہم کس چیز کے موافق عمل کریں؟ کیا اس چیز کے موافق عمل کریں جس سے فراغت ہو چکی ہے (یعنی جس کا فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے)؟ یا ہم ایسی چیز پر عمل کریں جس سے ابھی فراغت نہیں ہوئی ہے۔ (یعنی اس کا فیصلہ ہمارا عمل دیکھ کر کیا جائے گا) آپ نے فرمایا: ”عمر! ہم اسی چیز کے موافق عمل کرتے ہیں جس سے فراغت ہو چکی ہے۔ (اور ہمارے عمل سے پہلے) وہ چیز ضبط تحریر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3111]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: سو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی نیک بخت (ہود: 105)
2؎: ہمارے وجود میں آنے سے پہلے ہی سب کچھ لکھا جا چکا ہے کہ ہم پیدا ہو کر کیا کچھ کریں گے اور کس انجام کو پہنچیں گے۔
3؎: نیک کو نیک عمل کی اور برے کو برے عمل کی توفیق دی جاتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3111