ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے، آپ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا میں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ بیشک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ نہ کرو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے اس سند سے صرف صالح مری کی روایت سے جانتے ہیں اور صالح مری کے بہت سارے غرائب ہیں جن کی روایت میں وہ منفرد ہیں، کوئی ان کی متابعت نہیں کرتا۔ ۳- اس باب میں عمر، عائشہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2133]
وضاحت: ۱؎: تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء و قدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے، اور اس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسند کرتا ہے، اور برے اعمال کو ناپسند کرتا ہے، اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا و سزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث و مباحثہ جائز نہیں، کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (98 و 99)
قال الشيخ زبير على زئي: (2133) إسناده ضعيف صالح المري : ضعيف (تق: 2845) وللحديث شواھد ضعيفة، انظر تنقيح الرواة (26/1)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2133
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء وقدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے، اوراس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسند کرتا ہے، اور برے اعمال کو ناپسند کرتا ہے، اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا وسزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث ومباحثہ جائز نہیں، کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2133
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 98
´مسئلہ تقدیر میں بحث و مباحثہ کی ممانعت` «. . . وَعَن أبي هُرَيْرَة قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وجنتيه الرُّمَّانِ فَقَالَ أَبِهَذَا: «أُمِرْتُمْ أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلُكُمْ حِينَ تنازعوا فِي هَذَا الْأَمر عزمت عَلَيْكُم أَلا تتنازعوا فِيهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ من حَدِيث صَالح المري وَله غرائب يتفرد بهَا لَا يُتَابع عَلَيْهَا قلت: لَكِن يشْهد لَهُ الَّذِي بعده . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے یہ بیان کیا کہ ہم لوگ تقدیری معاملات میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے اور اس کے متعلق آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے (تو ہماری اس گفتگو اور تقدیر کے متعلق بحث و مباحثہ کو سن کر) اس قدر ناراض ہوئے کہ غصہ کی وجہ سے آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا گویا آپ کے دونوں رخساروں میں سرخ انار کے دانوں کا پانی نچوڑ دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم کو اسی کا حکم دیا گیا ہے یا میں تمہارے پاس اسی کام کے لیے بھیجا گیا ہوں؟ جو قومیں تم سے پہلے گزری ہیں جب انہوں نے تقدیروں میں لڑنا جھگڑنا شروع کیا تو اسی وجہ سے وہ تباہ و برباد ہو گئیں میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ آئندہ تم اس تقدیری معاملہ میں ہرگز بحث و مباحثہ نہ کرنا۔“ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 98]
تخریج: [سنن ترمذي 2133]
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس کا راوی صالح بن بشیر المری زاہد واعظ ہونے کے ساتھ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ ◈ حافظ ابن حجر نے کہا: «ضعيف»[تقريب التهذيب: 2845] ◈ امام یحیی بن معین نے اسے «ضعيف الحديث»[الجرح و التعديل 396/4 و اسانيده صحيحه] ◈ عمرو بن علی الفلاس اور ابوحاتم الرازی نے «منكرالحديث» الخ قرار دیا ہے۔ [الجرح و التعديل 396/4 و اسانيده صحيحه]