الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
3.11. مسئلہ تقدیر میں بحث و مباحثہ کی ممانعت
حدیث نمبر: 98
‏‏‏‏وَعَن أبي هُرَيْرَة قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وجنتيه الرُّمَّانِ فَقَالَ أَبِهَذَا: «أُمِرْتُمْ أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلُكُمْ حِينَ تنازعوا فِي هَذَا الْأَمر عزمت عَلَيْكُم أَلا تتنازعوا فِيهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ من حَدِيث صَالح المري وَله غرائب يتفرد بهَا لَا يُتَابع عَلَيْهَا قلت: لَكِن يشْهد لَهُ الَّذِي بعده
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے اسی دوران رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے اور آپ سخت ناراض ہوئے حتیٰ کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا گویا آپ کے رخساروں پر انار کے دانے نچوڑ دیے گئے ہیں، تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں اس (تقدیر کے مسئلہ پر بحث کرنے) کا حکم دیا گیا، کیا مجھے اس چیز کے ساتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہے؟ تم سے پہلی قوموں نے اس معاملے میں بحث و تنازع کیا تو وہ ہلاک ہو گئیں، میں تمہیں قسم دیتا ہوں اور تم پر واجب کرتا ہوں کہ تم اس مسئلہ پر بحث و تنازع نہ کرو۔  اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 98]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2133 وقال: ھذا حديث غريب . إلخ)
٭ صالح المري ضعيف، وانظر الحديث الآتي (99) فھو شاھد لبعضه .»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

   جامع الترمذيهلك من كان قبلكم حين تنازعوا في هذا الأمر عزمت عليكم ألا تتنازعوا فيه
   مشكوة المصابيحامرتم ام بهذا ارسلت إليكم إنما هلك من كان قبلكم حين تنازعوا في هذا الامر عزمت عليكم الا تتنازعوا فيه

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 98 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 98  
تخریج:
[سنن ترمذي 2133]

تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
اس کا راوی صالح بن بشیر المری زاہد واعظ ہونے کے ساتھ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
◈ حافظ ابن حجر نے کہا: «ضعيف» [تقريب التهذيب: 2845]
◈ امام یحیی بن معین نے اسے «ضعيف الحديث» [الجرح و التعديل 396/4 و اسانيده صحيحه]
◈ عمرو بن علی الفلاس اور ابوحاتم الرازی نے «منكرالحديث» الخ قرار دیا ہے۔ [الجرح و التعديل 396/4 و اسانيده صحيحه]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 98   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2133  
´تقدیر کے مسئلہ میں بحث و تکرار بڑی بری بات ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے، آپ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا میں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ بیشک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ نہ کرو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2133]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے،
یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء وقدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے،
اوراس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے،
لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے،
مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسند کرتا ہے،
اور برے اعمال کو ناپسند کرتا ہے،
اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا وسزا دیتا ہے،
تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث ومباحثہ جائز نہیں،
کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2133