عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، انیسہ، انس، ابوذر اور سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۳- رات ہی میں اذان کہہ دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر رات باقی ہو تبھی مؤذن اذان کہہ دے تو کافی ہے، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں، مالک، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ رات میں اذان دیدے تو اسے دہرائے
۱؎، یہی سفیان ثوری کہتے ہیں،
۴- حماد بن سلمہ نے بطریق
«ایوب عن نافع عن ابن عمر» روایت کی ہے کہ بلال رضی الله عنہ نے رات ہی میں اذان دے دی، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکار کر کہہ دیں کہ بندہ سو گیا تھا۔ یہ حدیث غیر محفوظ ہے، صحیح وہ روایت ہے جسے عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے بطریق نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں، اور عبدالعزیز بن ابی رواد نے نافع سے روایت کی ہے کہ عمر رضی الله عنہ کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمر نے اسے حکم دیا کہ وہ اذان دہرائے، یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ نافع اور عمر رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور شاید حماد بن سلمہ، کی مراد یہی حدیث
۲؎ ہو، صحیح عبیداللہ بن عمر دوسرے رواۃ کی روایت ہے جسے ان لوگوں نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر سے اور زہری نے سالم سے اور سالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں،
۵- اگر حماد کی حدیث صحیح ہوتی تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہوتا، جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں، آپ نے لوگوں کو آنے والے زمانے کے بارے میں حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں
“ اور اگر آپ طلوع فجر سے پہلے اذان دے دینے پر انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیتے تو آپ یہ نہ فرماتے کہ
”بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں
“، علی بن مدینی کہتے ہیں: حماد بن سلمہ والی حدیث جسے انہوں نے ایوب سے، اور ایوب نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر سے اور عمر نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے غیر محفوظ ہے، حماد بن سلمہ سے اس میں چوک ہوئی ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 203]
● صحيح البخاري | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن أو قال حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم |
● صحيح البخاري | بلالا ينادي بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم |
● صحيح البخاري | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم ثم قال وكان رجلا أعمى لا ينادي حتى يقال له أصبحت أصبحت |
● صحيح البخاري | بلالا ينادي بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم |
● صحيح مسلم | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم |
● صحيح مسلم | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم |
● جامع الترمذي | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم |
● سنن النسائى الصغرى | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم |
● سنن النسائى الصغرى | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم |
● بلوغ المرام | إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | إن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم |
● مسندالحميدي | أن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم |