ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں میں سے کوئی شخص کسی بھی نیک کام کو حقیر نہ سمجھے، اگر کوئی نیک کام نہ مل سکے تو اپنے بھائی سے مسکرا کر ملے ۱؎، اور اگر تم گوشت خریدو یا ہانڈی پکاؤ تو شوربا (سالن) بڑھا لو اور اس میں سے چلو بھر اپنے پڑوسی کو دے دو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے بھی اسے ابوعمران جونی کے واسطہ سے روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1833]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/البر و الصلة 42 (2625/142)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 58 (3362)، (تحفة الأشراف: 11951)، و مسند احمد (5/149، 156، 161، 171) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اپنے مسلمان بھائی سے مسکرا کر ملنا اسے دلی سکون پہنچانا ہے، یہ بھی ایک نیک عمل ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1368) ، التعليق الرغيب (3 / 264)
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1261
معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو «وعن ابي ذر رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا تحقرن من المعروف ولو ان تلقى اخاك بوجه طلق .» سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی بھلے کام کو حقیر اور معمولی نہ سمجھو۔ خواہ اپنے بھائی سے کشادہ چہرے سے ملنا ہی کیوں نہ ہو۔“(اس کو مسلم نے روایت کیا ہے)۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1261]
فوائد: نیکی کا کوئی بھی کام معمولی نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ»[2-البقرة:215] ”اور تم جو بھلائی بھی کرو اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے۔“ اور فرمایا: «فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ»[99-الزلزلة:7] ”پس جو شخص ایک ذرے کے برابر بھلائی کرے وہ اسے دیکھ لے گا۔“
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 92
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6690
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھے فرمایا:"کسی نیکی کو کم تر (حقیر)خیال نہ کرو،اگرچہ اپنے بھائی کو کشادہ چہرے سے ملنا ہی ہو۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6690]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: چونکہ نیکی، نیکی کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے، اس لیے شیطان، انسان کو نیکی سے محروم رکھنے کے لیے، اس کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے تو نے بڑے بڑے گناہ کیے ہیں، کوئی بڑی نیکی نہیں کی ہے، تمہیں اس چھوٹی سی نیکی کرنے سے کیا حاصل ہو گا، حالانکہ بسا اوقات، اخلاص اور نیک نیتی سے کی گئی چھوٹی سی نیکی انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے، بڑی نیکیوں کا راستہ ہموار کر دیتی ہے، گناہوں کی بخشش کا باعث بن جاتی ہے اور بدی کا راستہ روک لیتی ہے، جیسا کہ ایک عورت کی کایا، محض کتے کو پانی پلانے سے پلٹ گئی تھی، دوسرے کے لیے ایک کانٹے دار شاخ کے راستہ سے ہٹانے نے جنت کی راہ ہموار کی تھی، اس لیے کسی نیکی کو کم تر سمجھ کر اس سے باز نہیں رہنا چاہیے۔