22. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الْفَجْرِ
22. باب: عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کی کراہت کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے کئی لوگوں سے
(جن میں عمر بن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں) سنا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فجر کے بعد جب تک کہ سورج نکل نہ آئے
۱؎ اور عصر کے بعد جب تک کہ ڈوب نہ جائے نماز
۲؎ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس کی حدیث جسے انہوں نے عمر سے روایت کی ہے، حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابن مسعود، عقبہ بن عامر، ابوہریرہ، ابن عمر، سمرہ بن جندب، عبداللہ بن عمرو، معاذ بن عفراء، صنابحی
(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے انہوں نے نہیں سنا ہے) سلمہ بن اکوع، زید بن ثابت، عائشہ، کعب بن مرہ، ابوامامہ، عمرو بن عبسہ، یعلیٰ ابن امیہ اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر فقہاء کا یہی قول ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے کو مکروہ جانا ہے، رہیں فوت شدہ نمازیں تو انہیں عصر کے بعد یا فجر کے بعد قضاء کرنے میں کوئی حرج نہیں،
۴- شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ابوالعالیہ سے صرف تین چیزیں سنی ہیں۔ ایک عمر رضی الله عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ سورج نہ ڈوب جائے، اور فجر کے بعد بھی جب تک کہ سورج نکل نہ آئے، اور
(دوسری) ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”تم میں سے کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اور
(تیسری) علی رضی الله عنہ کی حدیث کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں
“۔
[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 183]