الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
22. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الْفَجْرِ
22. باب: عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 183
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ وَهُوَ ابْنُ زَاذَانَ , عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال: سَمِعْتُ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَكَانَ مِنْ أَحَبِّهِمْ إِلَيَّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَعَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَابْنِ مَسْعُودٍ , وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَابْنِ عُمَرَ , وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَمُعَاذِ ابْنِ عَفْرَاءَ , وَالصُّنَابِحِيِّ، وَلَمْ يَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ , وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَعَائِشَةَ , وَكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ , وَأَبِي أُمَامَةَ , وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ , وَيَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ , وَمُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، أَنَّهُمْ كَرِهُوا الصَّلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَأَمَّا الصَّلَوَاتُ الْفَوَائِتُ فَلَا بَأْسَ أَنْ تُقْضَى بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ. قَالَ عَلِيُّ ابْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ قَتَادَةُ مِنْ أَبِي الْعَالِيَةِ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَشْيَاءَ، حَدِيثَ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَحَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَال: " لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى " , وَحَدِيثَ عَلِيٍّ الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے کئی لوگوں سے (جن میں عمر بن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں) سنا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فجر کے بعد جب تک کہ سورج نکل نہ آئے ۱؎ اور عصر کے بعد جب تک کہ ڈوب نہ جائے نماز ۲؎ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس کی حدیث جسے انہوں نے عمر سے روایت کی ہے، حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابن مسعود، عقبہ بن عامر، ابوہریرہ، ابن عمر، سمرہ بن جندب، عبداللہ بن عمرو، معاذ بن عفراء، صنابحی (نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے انہوں نے نہیں سنا ہے) سلمہ بن اکوع، زید بن ثابت، عائشہ، کعب بن مرہ، ابوامامہ، عمرو بن عبسہ، یعلیٰ ابن امیہ اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر فقہاء کا یہی قول ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے کو مکروہ جانا ہے، رہیں فوت شدہ نمازیں تو انہیں عصر کے بعد یا فجر کے بعد قضاء کرنے میں کوئی حرج نہیں،
۴- شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ابوالعالیہ سے صرف تین چیزیں سنی ہیں۔ ایک عمر رضی الله عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ سورج نہ ڈوب جائے، اور فجر کے بعد بھی جب تک کہ سورج نکل نہ آئے، اور (دوسری) ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اور (تیسری) علی رضی الله عنہ کی حدیث کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 183]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المواقیت 30 (581)، صحیح مسلم/المسافرین 51 (826)، سنن ابی داود/ الصلاة 299 (1276)، سنن النسائی/المواقیت 32 (563)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 147 (1250)، (تحفة الأشراف: 10492)، مسند احمد (1/21، 39)، سنن الدارمی/الصلاة 142 (1473) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: بخاری کی روایت میں «حتى ترتفع الشمس» ہے، دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس حدیث میں طلوع سے مراد مخصوص قسم کا طلوع ہے اور وہ سورج کا نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنا ہے۔
۲؎: مذکورہ دونوں اوقات میں صرف سبب والی نفلی نمازوں سے منع کیا گیا ہے، فرض نمازوں کی قضاء، تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضو، طواف کی دو رکعتیں اور نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1250)

   صحيح البخارينهى عن الصلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس وبعد العصر حتى تغرب
   صحيح مسلمنهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس بعد العصر حتى تغرب الشمس
   جامع الترمذينهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس
   سنن أبي داودلا صلاة بعد صلاة الصبح حتى تطلع الشمس ولا صلاة بعد صلاة العصر حتى تغرب الشمس
   سنن النسائى الصغرىنهى عن الصلاة بعد العصر
   سنن النسائى الصغرىنهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس
   سنن ابن ماجهلا صلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس ولا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 183 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 183  
اردو حاشہ:
1؎:
بخاری کی روایت میں ((حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ)) ہے،
دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس حدیث میں طلوع سے مراد مخصوص قسم کا طلوع ہے اور وہ سورج کا نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنا ہے۔

2؎:
مذکورہ دونوں اوقات میں صرف سبب والی نفلی نمازوں سے منع کیا گیا ہے،
فرض نمازوں کی قضاء،
تحیۃ المسجد،
تحیۃ الوضوء،
طواف کی دو رکعتیں اور صلاۃِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 183   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1276  
´ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی پسندیدہ لوگوں نے گواہی دی ہے، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور میرے نزدیک عمر رضی اللہ عنہ ان میں سب سے پسندیدہ شخص تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کوئی نماز نہیں، اور نہ عصر کے بعد سورج ڈوبنے سے پہلے کوئی نماز ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1276]
1276۔ اردو حاشیہ:
➊ سورج طلوع یا غروب ہونے میں دیر ہو تو سببی پڑھی جا سکتی ہے۔ ویسے عام نفل پڑھنا ناجائز ہے۔
➋ اہل بیت اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں انتہائی اخوت اور محبت کے روابط تھے، بہت بڑے ظالم ہیں وہ لوگ جو ان مقدس ہستیوں کو ایک دوسرے کا حریف ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1276   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1250  
´فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی اچھے لوگوں نے گواہی دی، ان میں میرے نزدیک سب زیادہ اچھے شخص عمر رضی اللہ عنہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1250]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے حدیث بیان کرتے وقت یہ الفاظ کہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی۔
اور اس سے مقصود محض تاکید ہے۔
جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ انھیں یہ حدیث پوری طرح یاد ہے۔
اور وہ اسے پورے اعتماد سے بیان کررہے ہیں۔
جس طرح گواہی پورے یقین اور اعتماد کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔

(2)
حدیث قابل اعتماد اور ثقہ افراد کی روایت کی ہوئی قبول ہوتی ہے۔
ناقابل اعتماد افراد کی روایت کردہ حدیث قبول کرنا درست نہیں۔

(3)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے جوحدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نہیں سنی ہوتی تھی وہ دوسرے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین سے سن کر روایت کرتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔
یعنی قابل اعتماد افراد کی روایت کردہ صحیح سند والی حدیث پر عمل کرنا صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے ہاں بھی واجب تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1250   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:581  
581. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میرے سامنے چند پسندیدہ لوگوں نے جن میں سب سے زیادہ پسندیدہ حضرت عمر ؓ تھے، یہ بیان کیا کہ نبی ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:581]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان سے امام بخاری ؒ حدیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ طلوع شمس سے مراد اس کا خوب بلند ہونا ہے، علاوہ ازیں حدیث میں نماز کے متعلق دواوقات کا بیان ہے جبکہ عنوان میں نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز سے منع رہنے کا حکم ہے۔
اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عصر کے بعد غروب آفتاب سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنا ثابت ہے اور فجر کےبعد طلوع آفتاب سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے کسی موقع پر نماز نہیں پڑھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے عنوان میں صرف نماز فجر کے بعد نماز کے منع ہونے کو اختیار کیا ہے۔
(فتح الباري: 77/2) (2)
اس حدیث میں صرف دو اوقاتِ مکروہ کا ذکر ہے جبکہ دیگر احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اوقات مکروہ پانچ ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک۔
٭نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک۔
٭عین طلوع آفتاب۔
٭استواء آفتاب، یعنی عین دوپہر کے وقت۔
٭عین غروب آفتاب۔
ان میں سے پہلے دو اوقات کو نماز فجر اور نماز عصر سے وابستہ کیا گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو اوقات میں نماز پڑھنے کی کراہت وقت کی وجہ سے نہیں کہ وقت کی ذاتی خرابی کی بنا پر ان میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، بلکہ فرض نماز کے حق کی بنا پر ہے تاکہ تمام وقت فرض نماز کے لیے وقف ہو۔
اگر وقت کی ذاتی خرابی بنا پر کراہت ہوتی تو فجرو عصر کی تاخیر طلوع غروب سے قبل تک جائز نہ ہوتی۔
اور آخری تین اوقات ممنوعہ ان کی ذاتی خرابی کی بنا پر ہیں، کیونکہ طلوع غروب کے وقت شیطان کی عبادت کی جاتی ہے اور عین دوپہر کے وقت جہنم جوش میں ہوتی ہے جو غضب الہٰی کا مظہر ہے، نیز اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ان تمام اوقات مکروہ میں ایسے نوافل پڑھنے کی اجازت نہیں ہے جو کسی سبب سے وابستہ نہیں ہیں اور نہ شریعت نے ان کے متعلق کوئی ترغیب ہی دی ہے، البتہ ان اوقات میں فوت شدہ نمازیں، نماز جنازہ اور ایسے نوافل پڑھے جاسکتے ہیں جو کسی سبب سے وابستہ ہیں اور شریعت نے انھیں ادا کرنے کی ترغیب دی ہے. جیسا کہ تحیۃ المسجد وغیرہ۔
ایسے نوافل کو فقہی اصطلاح میں ذوات الاسباب کہا جاتا ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت میں قتادہ راوی نے ابو العالیہ سے جب روایت بیان کی تو اس میں سماع کی صراحت نہ تھی، اس لیے امام بخاری نے ایک دوسری سند پیش کی ہے جس میں تصریح سماع ہے۔
اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام بخاری کو چاہیے تھا کہ وہ تصریح سماع والی روایت ہی کو بیان کردیتے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ تصریح سماع والی روایت میں واسطے زیادہ تھے، اس لیے وہ ان کے نزدیک نازل سند تھی۔
پہلی روایت جس میں تصریح سماع نہیں وہ عالی سند سے بیان ہوئی ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بنیاد بنایا ہے اور اس پر جو اعتراض ہوسکتا تھا اسے دور کرنے کے لیے دوسری سند بیان کردی۔
(عمدة القاري: 110/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 581