جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور اسے داغنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1710]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/اللباس 29 (2116)، (تحفة الأشراف: 2816)، و مسند احمد (3/318، 378) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چہرہ جسم کے اعضاء میں سب سے افضل و اشرف ہے، چہرہ پر مارنے سے بعض حواس ناکام ہو سکتے ہیں، ساتھ ہی چہرہ کے عیب دار ہونے کا بھی خطرہ ہے، اسی لیے مارنے کے ساتھ اس پر کسی طرح کا داغ لگانا بھی ناپسند سمجھا گیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2185) ، صحيح أبي داود (2310)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1710
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: چہرہ جسم کے اعضاء میں سب سے افضل و اشرف ہے، چہرہ پر مارنے سے بعض حواس ناکام ہو سکتے ہیں، ساتھ ہی چہرہ کے عیب دار ہونے کا بھی خطرہ ہے، اسی لیے مارنے کے ساتھ اس پر کسی طرح کا داغ لگانا بھی ناپسند سمجھا گیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1710
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2564
´چہرے پر داغنا اور مارنا منع ہے۔` جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے چہرہ کو داغ دیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں یہ بات نہیں پہنچی ہے کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانوروں کے چہرے کو داغ دے، یا ان کے چہرہ پہ مارے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2564]
فوائد ومسائل: 1۔ چہرہ جسم کا قابل عزت حصہ ہے۔ انسان کا ہویا حیوان کا چہرے پر مارنا ممنوع ہے۔
2۔ نبی اکرمﷺ کا لعنت کرنا اپنی مرضی سے نہ تھا، بلکہ الہام الہی کی بنیاد پر تھا-
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2564
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5550
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور چہرے کو داغنے سے منع فرمایا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5550]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: الوسم: داغ، علامت، نشان۔ فوائد ومسائل: امام نووی فرماتے ہیں، ہر قابل احترام جاندار کے چہرے پر مارنا ممنوع ہے، انسان، گدھا، گھوڑا، اونٹ، خچر اور بھیڑ بکری وغیرہ سب اس میں داخل ہیں، لیکن آدمی کے چہرے پر مارنا انتہائی ممنوع ہے، کیونکہ چہرہ تمام محاسن کا مرکز ہے اور لطیف (نرم و نازک) عضو ہے، جس پر مار کا اثر و نشان پڑ جاتا ہے اور بسا اوقات اس کی بدصورتی کا باعث بنتا ہے اور بعض دفعہ اس سے جو اس کو تکلیف پہنچ جاتی ہے، اور چہرے پر داغ دینا بھی جائز نہیں ہے، انسان کے سوا باقی حیوانات کو چہرے کے سوا داغنا ضرورت کے وقت جائز ہے، اس طرح چہرے کے سوا ضرورت کے تحت مارنا بھی جائز ہے۔