یوسف بن ماہک سے روایت ہے کہ لوگ حفصہ بنت عبدالرحمٰن کے پاس گئے اور ان سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ (ان کی پھوپھی) ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حفصہ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی بیٹی ہیں، ۳- اس باب میں علی، ام کرز، بریدہ، سمرہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، انس، سلمان بن عامر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1513]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الذبائح 1 (3163)، (تحفة الأشراف: 1513)، و مسند احمد (6/31، 158، 251) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں نومولود کے سر پر نکلتے ہیں، اس حالت میں نومولود کی طرف سے جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ عقیقہ «عق» سے ماخوذ ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں، ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ اس لیے کہا گیا کہ اس کے اعضاء کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پیٹ کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیئے، «شاة» کے لفظ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور کی شرائط نہیں ہیں، لیکن بہتر ہے کہ قربانی کے جانور میں شارع نے جن نقائص اور عیوب سے بچنے اور پرہیز کرنے کی ہدایت دی ہے ان کا لحاظ رکھا جائے، عقیقہ کے جانور کا دو دانتا ہونا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں، البتہ «شاة» کا تقاضا ہے کہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ اور لفظ «شاة» کا یہ بھی تقاضا ہے کہ گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز نہیں، اگر گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز ہوتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف «شاة» کا تذکرہ نہ فرماتے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1513
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو نومولود کی طرف سے ذبح کیاجاتاہے، یہ بھی کہاگیا ہے کہ اصل میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں نومولود کے سر پر نکلتے ہیں، اس حالت میں نومولود کی طرف سے جوجانور ذبح کیاجاتاہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ عقیقہ ”عق“ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں، ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ اس لیے کہاگیا کہ اس کے اعضاء کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پیٹ کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیے، ”شاۃ“ کے لفظ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور کی شرائط نہیں ہیں، لیکن بہتر ہے کہ قربانی کے جانور میں شارع نے جن نقائص اور عیوب سے بچنے اور پرہیز کرنے کی ہدایت دی ہے ان کا لحاظ رکھا جائے، عقیقہ کے جانور کا دو دانتا ہونا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں، البتہ ”شاۃ“ کا تقاضا ہے کہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ اور لفظ ”شأة“ کا یہ بھی تقاضا ہے کہ گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز نہیں، اگر گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز ہوتے تو نبی اکرمﷺ صرف ”شأة“ کا تذکرہ نہ فرماتے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1513