عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا دن آ گیا، چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کو شریک کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف فضل بن موسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں «ابوالأ سد سلمی عن أبیہ عن جدہ» اور ابوایوب سے احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1501]
وضاحت: ۱؎: سات افراد کی طرف سے گائے اور دس افراد کی طرف سے اونٹ ذبح کرنے کا یہ ضابطہٰ و اصول قربانی کے جانوروں کے لیے ہے، جب کہ ہدی کے جانور اونٹ ہوں یا گائے سب میں سات سات افراد شریک ہوں گے، آگے جابر رضی الله عنہ کی روایت سے یہی ثابت ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1501
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: سات افراد کی طرف سے گائے اور دس افراد کی طرف سے اونٹ ذبح کرنے کا یہ ضابطہ واصول قربانی کے جانوروں کے لیے ہے، جب کہ ہدی کے جانور اونٹ ہوں یا گائے سب میں سات سات افراد شریک ہوں گے، آگے جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہی ثابت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1501
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
اونٹ میں شرا کت:
ایک اونٹ میں دس حصہ دار شریک ہو سکتے ہیں، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں عید الاضحی کے موقع پر ایک اونٹ میں دس اور ایک گائے میں سات آدمی شریک ہوئے۔ [مسند الامام احمد: ٢٤٨٨، السنن الكبري للنسائي: ٤١٢٣، ٤٣٩٢، ٤٤٨٢، جامع ترمذي: ٩٠٥، سنن ابن ما جه: ٣١٣١، المستدرك للحا كم: ٤/٢٣٠، السنن الكبري للبيهقي: مشكل الآثار للطحاوي: ٣/٢٤٥، شرح السنة للبغوي: ١١٣٢، وسنده حسن]
اس حدیث کو امامِ ترمذی نے ”حسن غریب“ امام ابنِ حبان (٤٠٠٧) نے ”صحیح“ اور امامِ حا کم نے ”صحیح علیٰ شرط البخاری“ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ میں دس آدمی حصہ ڈال سکتے ہیں، اس کے تعارض میں ایک روایت ہے، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم حدیبیہ والے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی، ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیا اور ایک گائے بھی سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی گئی۔ [صحيح مسلم: ١/٤٢٤، ح: ١٣١٨]
اس حدیث کو ”ہدی“(منیٰ میں جانے والی قربانی) پر محمول کریں تو ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے مخالفت ختم ہو جاتی ہے، یعنی منیٰ میں حجاجِ کرام ایک اونٹ میں سات آدمی شریک ہوں گے، جبکہ دیگر لوگ ایک اونٹ کو دس آدمیوں کی طرف سے ذبح کر سکتے ہیں۔
متفرق، حدیث/صفحہ نمبر: 0
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4397
´اونٹ کی قربانی کتنے لوگوں کی طرف سے کافی ہے۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ قربانی کا دن آ گیا، ہم ایک اونٹ میں دس دس لوگ اور ایک گائے میں سات سات لوگ شریک ہوئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4397]
اردو حاشہ: معلوم ہوا سفر میں بھی قربانی کی جائے گی جس طرح گھر میں۔ یا د رہنا چاہیے کہ پور ے ایک گھر پر ایک قربانی ہی واجب ہے، نہ کہ ہر ہر فر د پر۔ گائے سات گھروں کی طرف سے اور اونٹ دس گھروں کی طرف سے کافی ہے۔ گھر سے مراد خاوند بیوی بچے ہیں یا وہ افراد جو ایک سربراہ (باپ) کی کفالت میں رہتے ہوں جبکہ شادی شدہ مرد الگ گھرانہ ہو گا، بشر طیکہ وہ خود کفیل ہوں۔ اگر خود کفیل نہیں بلکہ باپ ہی کے زیردست ہوں تو پھر وہ سب ایک ہی فیملی شمار ہو ں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4397
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3134
´اونٹ اور گائے کی قربانی کتنے لوگوں کی طرف سے کافی ہو گی؟` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اونٹ کم ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3134]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہےاورانھی کی رائےاقرب الی الصلواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد ومتابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعيف سنن أبي داؤد (مفصل) للألباني تحت الحديث: 325 وسنن ابن ماجه بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 3134)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3134