الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
39. باب مَا جَاءَ فِي أَنَّ الْعَارِيَةَ مُؤَدَّاةٌ
39. باب: عاریت لی ہوئی چیز کو واپس کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1266
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ ". قَالَ قَتَادَةُ: ثُمَّ نَسِيَ الْحَسَنُ، فَقَالَ: " فَهُوَ أَمِينُكَ لَا ضَمَانَ عَلَيْهِ، يَعْنِي الْعَارِيَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، إِلَى هَذَا وَقَالُوا: يَضْمَنُ صَاحِبُ الْعَارِيَةِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لَيْسَ عَلَى صَاحِبِ الْعَارِيَةِ ضَمَانٌ، إِلَّا أَنْ يُخَالِفَ، وَهُوَ قَوْلُ: الْثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق.
سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک وہ اسے ادا نہ کر دے اس کے ذمہ ہے ۱؎، قتادہ کہتے ہیں: پھر حسن بصری اس حدیث کو بھول گئے اور کہنے لگے جس نے عاریت لی ہے وہ تیرا امین ہے، اس پر تاوان نہیں ہے، یعنی عاریت لی ہوئی چیز تلف ہونے پر تاوان نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں یہ لوگ کہتے ہیں: عاریۃً لینے والا ضامن ہوتا ہے۔ اور یہی شافعی اور احمد کا بھی قول ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عاریت لینے والے پر تاوان نہیں ہے، الا یہ کہ وہ سامان والے کی مخالفت کرے۔ ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1266]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ البیوع 90 (3561)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 5 (2400)، (تحفة الأشراف: 4584)، و مسند احمد (5/12، 13)، وسنن الدارمی/البیوع 56 (2638) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عاریت لی ہوئی چیز جب تک واپس نہ کر دے عاریت لینے والے پر واجب الاداء رہتی ہے، عاریت لی ہوئی چیز کی ضمانت عاریت لینے والے پر ہے یا نہیں، اس بارے میں تین اقوال ہیں: پہلا قول یہ ہے کہ ہر صورت میں وہ اس کا ضامن ہے خواہ اس نے ضمانت کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو، ابن عباس، زید بن علی، عطاء، احمد، اسحاق اور امام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت کی شرط نہ کی ہو گی تو اس کی ذمہ داری اس پر عائد نہ ہو گی، تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجود بھی ضمانت کی شرط نہیں بشرطیکہ خیانت نہ کرے اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2400)

قال الشيخ زبير على زئي: (1266) إسناده ضعيف / د 3561، جه 2400

   جامع الترمذيعلى اليد ما أخذت حتى تؤدي
   سنن أبي داودعلى اليد ما أخذت حتى تؤدي ثم إن الحسن نسي فقال هو أمينك لا ضمان عليه
   سنن ابن ماجهعلى اليد ما أخذت حتى تؤديه
   بلوغ المرامعلى اليد ما أخذت حتى تؤديه

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1266 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1266  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ عاریت لی ہوئی چیز جب تک واپس نہ کر دے عاریت لینے والے پر واجب الاداء رہتی ہے،
عاریت لی ہوئی چیزکی ضمانت عاریت لینے والے پر ہے یا نہیں،
اس بارے میں تین اقوال ہیں:
پہلا قول یہ ہے کہ ہرصورت میں وہ اس کا ضامن ہے خواہ اس نے ضمانت کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو،
ابن عباس،
زیدبن علی،
عطاء،
احمد،
اسحاق اورامام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے،
دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت کی شرط نہ کی ہوگی تو اس کی ذمہ داری اس پرعائد نہ ہوگی،
تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجود بھی ضمانت کی شرط نہیں بشرطیکہ خیانت نہ کر ے اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے۔

نوٹ:
(قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں،
اور روایت عنعنہ سے ہے،
اس لیے یہ سند ضعیف ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1266   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 751  
´ادھار لی ہوئی چیز کا بیان`
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک اسے ادا نہ کر دے اس کے ذمہ ہے۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 751»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في تضمين العارية، حديث:3561، والترمذي، البيوع، حديث:1266، وابن ماجه، الصدقات، حديث:2400، وأحمد:5 /8، 13، والنسائي في الكبرٰي:3 /411، حديث:5783.* قتادة عنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ لیکن یہ بات حق ہے کہ قرض‘ امانت اور عاریتاً لی ہوئی چیز کی واپسی فرض ہے‘ اس کے دلائل قرآن مجید اور دیگر صحیح احادیث میں موجود ہیں‘ مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ ﴾ (المؤمنون۲۳:۸) اور جو لوگ اپنی امانتوں اور وعدوں کا خیال رکھتے ہیں (وہی مومن کامیاب ہیں۔
)
2. ادھار لی ہوئی چیز کی ضمانت و ذمہ داری کس پر ہے؟ عاریتاً لینے والے پر ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں تین قول ہیں: پہلا قول تو یہ ہے کہ بہرصورت اس کی ضمانت و ذمہ داری عاریتاً لینے والے پر ہے‘ خواہ اس کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ‘ زید بن علی‘ عطاء‘ احمد‘ اسحاق اور امام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت و ذمہ داری کی شرط نہ کی ہوگی تو وہ اس کا ضامن نہیں ہو گا جیسا کہ آگے حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت میں آرہا ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجود بھی وہ ضامن نہیں ہو گا بشرطیکہ خیانت نہ کرے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 751   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3561  
´مانگی ہوئی چیز ضائع اور برباد ہو جائے تو ضامن کون ہو گا؟`
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لینے والے ہاتھ کی ذمہ داری ہے کہ جو لیا ہے اسے واپس کرے پھر حسن بھول گئے اور یہ کہنے لگے کہ جس کو تو مانگنے پر چیز دے تو وہ تمہاری طرف سے اس چیز کا امین ہے (اگر وہ چیز خود سے ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی تاوان (معاوضہ و بدلہ) نہ ہو گا۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3561]
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
اور حق یہ ہے کہ عاریتاً لی ہوئی کوئی چیز ہوجانے پر اس کی ضمان دینی ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3561   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2400  
´عاریت کا بیان۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاتھ پر واجب ہے کہ جو وہ لے اسے واپس کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2400]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہےلیکن یہ بات حق ہے کہ قرض امانت اورعاریتاً لی ہوئی چیز کی واپسی فرض ہے، اس کے دلائل قرآن مجید اوردیگر صحیح احادیث میں موجود ہیں مثلاً:
ارشاد باری تعالٰی ہے۔
:
﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ﴾  (المومنون 74: 8)
 اور جولوگ اپنی امانتوں اوروعدوں کاخیال رکھتےہیں۔ (وہی مومن کامیاب ہیں۔)
اوردیکھیے(سنن ابن ماجة، حدیث: 2401)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2400