تخریج: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في تضمين العارية، حديث:3561، والترمذي، البيوع، حديث:1266، وابن ماجه، الصدقات، حديث:2400، وأحمد:5 /8، 13، والنسائي في الكبرٰي:3 /411، حديث:5783.* قتادة عنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ لیکن یہ بات حق ہے کہ قرض‘ امانت اور عاریتاً لی ہوئی چیز کی واپسی فرض ہے‘ اس کے دلائل قرآن مجید اور دیگر صحیح احادیث میں موجود ہیں‘ مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ ﴾ (المؤمنون۲۳:۸) ”اور جو لوگ اپنی امانتوں اور وعدوں کا خیال رکھتے ہیں
(وہی مومن کامیاب ہیں۔
“) 2. ادھار لی ہوئی چیز کی ضمانت و ذمہ داری کس پر ہے؟ عاریتاً لینے والے پر ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں تین قول ہیں: پہلا قول تو یہ ہے کہ بہرصورت اس کی ضمانت و ذمہ داری عاریتاً لینے والے پر ہے‘ خواہ اس کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ‘ زید بن علی‘ عطاء‘ احمد‘ اسحاق اور امام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت و ذمہ داری کی شرط نہ کی ہوگی تو وہ اس کا ضامن نہیں ہو گا جیسا کہ آگے حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت میں آرہا ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجود بھی وہ ضامن نہیں ہو گا بشرطیکہ خیانت نہ کرے۔