ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سواری کا جانور جب رہن رکھا ہو تو اس پر سواری کی جائے اور دودھ والا جانور جب گروی رکھا ہو تو اس کا دودھ پیا جائے، اور جو سواری کرے اور دودھ پیے جانور کا خرچ اسی کے ذمہ ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہم اسے بروایت عامر شعبی ہی مرفوع جانتے ہیں، انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا ہے اور اعمش نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے موقوفا روایت کی ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رہن سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا درست نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1254]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرہن 4 (2511)، سنن ابی داود/ البیوع 78 (3526)، سنن ابن ماجہ/الرہون 2 (2440)، (تحفة الأشراف: 13540)، و مسند احمد 2/228) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «مرہون»”گروی رکھی ہوئی چیز“ سے فائدہ اٹھانا «مرتہن»”رہن رکھنے والے“ کے لیے درست نہیں البتہ اگر «مرہون» جانور ہو تو اس حدیث کی رو سے اس پر اس کے چارے کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور اس کا دودھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1254
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مرہون (گروی رکھی ہوئی چیز) سے فائدہ اٹھانا مرتہن (رہن رکھنے والے) کے لیے درست نہیں البتہ اگرمرہون جانورہو تو اس حدیث کی روسے اس پراس کے چارے کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اوراس کا دودھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1254
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 723
´پیشگی ادائیگی، قرض اور رھن کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”رہن رکھے ہوئے جانور پر (اس پر اٹھنے والے) مصارف و اخراجات کے بدلے سواری کی جا سکتی ہے۔ اور دودھ دینے والے جانور کا دودھ (اس پر اٹھنے والے) مصارف کے بدلے پیا جا سکتا ہے، جبکہ وہ رہن ہو اور جو آدمی سواری کرتا ہے اور دودھ پیتا ہے۔ اس کے اخراجات کا ذمہ دار بھی وہی ہے۔“(بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 723»
تخریج: «أخرجه البخاري، الرهن، باب الرهن مركوب ومحلوب، حديث:2512.»
تشریح: 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جب مرہونہ کی دیکھ بھال اور حفاظت کی ذمہ داری مرتھن پر ہے تو اس کے لیے اس سے انتفاع بھی جائز ہے‘ خواہ اس چیز یا جانور کا مالک اس کی اجازت نہ دے۔ امام احمد اور اسحاق رحمہما اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ جس کے پاس چیز رہن رکھی گئی ہے وہ اس پر آنے والے اخراجات کے بقدر اس کے دودھ اور سواری کا فائدہ لے سکتا ہے۔ ان دونوں کے سوا فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور نہ اخراجات سے زیادہ فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ 2.جمہور علماء کا قول ہے کہ مرہونہ چیز سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں بلکہ سارے فوائد رہن رکھنے والا اٹھا سکتا ہے۔ اس پر جو مشقت و محنت اور مصارف ہوں گے‘ وہ بھی اس کے ذمے ہوں گے۔ مگر یہ حدیث جمہور کے خلاف حجت ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 723
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2440
´رہن کے جانور پر سواری کرنا اور اس کا دودھ دوہنا جائز ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور پر سواری کی جائے گی جب وہ اس کے ذمہ گروی ہو، اور دودھ والے جانور کا دودھ پیا جائے گا جب وہ گروی ہو، اور جو سواری کرے یا دودھ پیئے اس جانور کی خوراک کا خرچ ہو گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2440]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رہن رکھے ہوئے جانور کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے اوراسے چار ہ کھلانا پڑٹا ہے ورنہ وہ مر سکتا ہے یا سخت بیمار یا کمزور ہو سکتا ہے اس طرح جانور پرظلم بھی ہو گا اورراہن یا مرتہن کو کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا اس لیے جانور کی دیکھ بھال کرنے والے کو اس کی محنت کے عوض اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دیا گیا ہے۔
(2) اگرگاڑی (کار وغیرہ) رہن رکھی جائے تو اس پرسفر کیا جا سکتا ہے تاہم اس کے پٹرول کا خرچ اور مرمت وغیرہ کےاخراجات قرض خواہ (قرض وہندہ) کے ذمے ہوں گے جو اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2440
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2512
2512. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سواری کا جانور اگر گروی ہے تو بقدر خرچ اس پر سواری کی جاسکتی ہے۔ اور اگر دودھ والا جانور گروی ہے تو خرچ کے عوض اس کا دودھ پیا جاسکتا ہے۔ سوار ہونے اور دودھ پینے والے کے ذمے اس کا خرچ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2512]
حدیث حاشیہ: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ، امام ابن قیم ؒ اور اصحاب حدیث کا مذہب یہی ہے کہ مرتہن شئی مرہونہ سے نفع اٹھاسکتا ہے۔ جب اس کی درستی اور اصلاح کی خبرگیری کرتا رہے۔ گو مالک نے اس کو اجازت نہ دی ہو اور جمہور فقہاءنے اس کے خلاف کہا ہے کہ مرتہن کو شی مرہونہ سے کوئی فائدہ اٹھانا درست نہیں۔ اہل حدیث کے مذہب پر مرتہن کو مکان مرہونہ بعوض اس کی حفاظت اور صفائی وغیرہ کے رہنا، اسی طرح غلام لونڈی سے بعوض ان کے نان اور پارچہ کے خدمت لینا درست ہوگا۔ جمہور فقہاءاس حدیث سے دلیل لیتے ہیں کہ جس میں قرض سے کچھ فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ اہل حدیث کہتے ہیں کہ اول تو یہ حدیث ضعیف ہے، اس صحیح حدیث کے معارضہ کے لائق نہیں۔ دوسرے اس حدیث میں مراد وہ قرضہ ہے جو بلا گروی کے بطور قرض حسنہ ہو۔ طحاوی نے اپنے مذہب کی تائید کے لیے اس حدیث میں یہ تاویل کی ہے کہ مراد یہ ہے کہ راہن اس پر سواری کرے اور اس کا دودھ پیے اور وہی اس کا دانہ چارہ کرے۔ اور ہم کہتے ہیں کہ یہ تاویل ظاہر کے خلاف ہے کیوں کہ مرہونہ جانور مرتہن کے قبضہ میں اور حراست میں رہتا ہے نہ کہ راہن کے۔ اس کے علاوہ حماد بن سلمہ نے اپنی جامع میں حماد بن ابی سلیمان سے جو حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے استاد ہیں، روایت کی، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، اسمیں صاف یوں ہے کہ جب کوئی بکری رہن کرے تو مرتہن بقدر اس کے دانے چارے کے اس کا دودھ پیے۔ اگر دودھ اس کے دانے چارے کے بعد بچ رہے تو اس کا لینا درست نہیں وہ ربوا ہے۔ (از مولانا وحید الزما ںمرحوم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2512