ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا (چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی؟ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲-(ساتھ رہنے اور نہ رہنے کے) اختیار دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ۳- عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کا کہنا ہے کہ اگر عورت نے خود کو اختیار کر لیا تو طلاق بائنہ ہو گی۔ اور انہی دونوں کا یہ قول بھی ہے کہ ایک طلاق ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اور اگر اس نے اپنے شوہر ہی کو اختیار کیا تو اس پر کچھ نہ ہو گا یعنی کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۲؎، ۴- اور علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے خود کو اختیار کیا تو طلاق بائن ہو گی اور اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی لیکن رجعت کا اختیار ہو گا، ۵- زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی اور اگر خود کو اختیار کیا تو تین ہوں گی، ۶- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم و فقہ اس باب میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں اور یہی ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے، ۷- البتہ احمد بن حنبل کا قول وہی ہے جو علی رضی الله عنہ کا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1179]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الطلاق 5 (5263)، صحیح مسلم/الطلاق 4 (1477)، سنن النسائی/النکاح 2 (3204)، والطلاق 27 (3471- 3475) (تحفة الأشراف: 17614) مسند احمد 6/202، 205، 240) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الطلاق 12 (2203)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 20 (152)، مسند احمد (6/45، 48، 171، 173، 185، 264) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: استفہام انکاری ہے یعنی طلاق نہیں مانی تھی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3204
´اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے اپنی قربت دکھانے کے لیے حلال رکھا اور اپنی مخلوق کے لیے حرام کر دیا۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا۔ کیا وہ طلاق تھا؟ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3204]
اردو حاشہ: بعض حضرات قائل ہیں کہ اگر خاوند (مندرجہ بالا صورت میں) اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دے دے تو عورت کو ہر حال میں طلاق ہوجائے گی، خواہ وہ خاوند کے گھر رہنے ہی کو پسند کرے۔ حضرت عائشہؓ نے اس خیال کی تردید فرمائی کہ جب عورت نے خاوند کو ترجیح دی تو پھر طلاق کیسی؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3204
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3471
´اختیار دی گئی عورتوں کا اپنے شوہروں کو اختیار کر لینے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم (ازواج مطہرات) کو اختیار دیا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو چن لیا، تو کیا یہ طلاق ہوئی؟ (نہیں، یہ طلاق نہیں ہوئی)۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3471]
اردو حاشہ: یعنی اس طرح طلاق نہیں ہوتی۔ طلاق تب ہوتی ہے کہ عورت خاوند کے بجائے طلاق کو پسند کرے۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ خواہ عورت خاوند ہی کو پسند کرے‘ عورت کو طلاق ہوجائے گی مگر یہ انتہائی غیر معقول بات ہے۔ حضرت عائشہؓ اسی کا رد فرما رہی ہیں۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طلاق کا اختیار نہیں دیا تھا بلکہ آپ نے تو ان کی رائے طلب کی تھی کہ تم چاہو تو میں طلاق دے دیتا ہوں‘ لیکن حضرت عائشہؓ نے ایسا فرق تسلیم نہیں فرمایا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3471
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3475
´اختیار دی گئی عورتوں کا اپنے شوہروں کو اختیار کر لینے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تو ہم سب نے آپ کو منتخب اور قبول کر لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم سے متعلق کچھ بھی شمار نہ کیا۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3475]
اردو حاشہ: یہی بات صحیح ہے کہ صرف طلاق کا اختیار دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی جب تک عورت طلاق پسند نہ کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3475
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2203
´عورت کو طلاق کا اختیار دینے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (اپنے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2203]
فوائد ومسائل: 1۔ اگر شوہر بیوی سے کہے مجھے اختیار کرلو یا اپنے آپ کو یا تمہیں اختیار ہے وغیرہ۔ اور نیت طلاق کی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اگر بیوی نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا تو طلاق ہو جائے گی۔ اور اگر شوہر کو اختیار کرلے تو نہیں ہوگی۔
2۔ فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی مالی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصا رومہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کر دیا۔ نبیﷺ چونکہ نہایت سادگی پسند تھے اس لیے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئےاور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینے تک جاری رہی۔ بالآخر اللہ تعالی نےیہ آیت نازل فرمائی: (يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (28) وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا)(الاحزاب:28-29) اس کے بعد نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا۔ تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔ حضرت عائشہ نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں۔ بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔ یہی بات دیگر ازواج مطہرات نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔ (صحیح بخاری تفسیر سورہ احزاب۔ ماخوذ از تفسیراحسن البیان)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2203
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2052
´مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اختیار دیا تو ہم نے آپ ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اس کو کچھ نہیں سمجھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2052]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کی مالی حالت بہتر ہوگئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کی بہتر حالت کو دیکھ کر امہات المومنین نے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ ان کے نان و نفقے میں اضافہ کی جائے۔ رسول اللہﷺ اس سے پریشان ہوئے اور ایک مہینہ امہات المومنین سے الگ تھلگ ایک بالا خانے میں تشریف فرما رہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے سورۃ احزاب کے چوتھے رکوع کی آیات نازل فرمائیں جن میں اللہ تعالی نے فرمایا: ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیئے: اگر تمہیں دنیا کی دولت مطلوب ہے تو وہ تمہیں مل جائے گی لیکن اس کےلیے مجھ سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی۔ اوراگر میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو پھر اسی طرح قناعت کی زندگی گزارنی پڑ ے گی جس طرح اب تک صبر و شکر کے ساتھ رہتی رہی ہو۔“ امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے نبئ اکرمﷺ کے ساتھ صبرو قناعت سے رہنے کے حق میں فیصلہ دیا، چنانچہ وہ سب نبی ﷺ کے نکاح میں رہیں۔ (صحیح البخاري، الطلاق، باب من خیر أزواجه......، حدیث: 5262، وصحیح مسلم، الطلاق، باب فی الإیلاء واعتزال النساء و تخییرهن.....، حدیث: 1479)
(2) مرد کی طرف سے عورت کو اختیا ردینا طلاق نہیں، البتہ اگر عورت اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الگ ہونے کا فیصلہ کرلے تو ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2052
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3204
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں ۱؎ تو آپ نے اپنی اس کاروائی کی ابتداء مجھ سے کی: آپ نے کہا: عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک معاملہ رکھتا ہوں، تم اپنے ماں باپ سے مشورہ لیے بغیر جواب دہی میں جلد بازی نہ کرنا، عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ آپ خوب سمجھتے تھے کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی و علیحدگی اختیار کر لینے کا حکم نہیں دے سکتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين» سے لے کر یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3204]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی وہ چاہیں تو آپ کے ساتھ رہیں اور تنگی کی زندگی گزاریں، اوراگر دنیا اور دنیا کی زینت چاہتی ہیں تو نبی اکرمﷺکا ساتھ چھوڑ دیں۔ 2؎: اے نبی! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجیئے کہ تمہیں اگر دنیا اور دنیا کی زینت چاہیے تو آؤ میں کچھ دے کر چھوڑ چھاڑ دوں، (طلاق کے ساتھ کچھ مال دے کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں) اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہو اور آخرت کا گھر تمہیں مطلوب ہے تو اللہ نے تم نیکو کاروں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کررکھا ہے (الأحزاب: 28۔ 29)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3204
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:236
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند کا بیوی کو اختیار دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کو اختیار دیا تھا، طلاق نہیں دی تھی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 236
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3684
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تھا (کہ نکاح میں رہیں یا نہ رہیں) تو ہم نے اس اختیار دینے کا طلاق شمار نہیں کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3684]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آئمہ اربعہ اور جمہور صحابہ کرام و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین اور فقہاء کے نزدیک بیوی کو اختیار دینا جبکہ اس نے خاوند کو اختیار کر لیا، طلاق نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک محض اختیار دینے سے طلاق رجعی واقع ہو جائے گی، اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام لیث رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک طلاق بائنہ جس سے رجوع نہیں ہو سکتا واقع ہو جائے گی اور امام خطابی نے غلط طور پر اس کی نسبت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بھی کی ہے لیکن قاضی عیاض مالکی نے اس سے انکار کیا ہے۔ صحیح احادیث کی روسے جمہور کا مؤقف ہی صحیح ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3684
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5263
5263. سیدنا مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ ؓ سے تخییر کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ہمیں اختیار دیا تھا۔ کیا محض یہ اختیار دیا تھا۔ کیا محض یہ اختیار طلاق بن جاتا؟ سیدنا مسروق نے کہا: اگر اختیار کے بعد عورت میرا انتخاب کرے تو مجھے کوئی پروا نہیں چاہے میں ایک مرتبہ دوں یا سو مرتبہ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5263]
حدیث حاشیہ: (1) جب بیوی خاوند کو اختیار کرے تو محض اختیار دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہاں، اگر وہ خود کو اختیار کرے تو طلاق ہو جائے گی۔ اس پر تقریباً تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ (2) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ صرف اختیار دینے سے طلاق بائنہ ہو جاتی ہے، خواہ وہ خاوند کو اختیار کرے۔ (جامع الترمذي، الطلاق و اللعان، حدیث: 1179) لیکن مذکورہ احادیث اس موقف کی تردید کرتی ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت کرنے کے بعد اپنے موقف سے رجوع کرلیا تھا۔ (فتح الباري: 457/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5263