عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ «ص» میں سجدہ کیا، اور فرمایا: ”داود علیہ السلام نے یہ سجدہ توبہ کے لیے کیا تھا، اور ہم یہ سجدہ (توبہ کی قبولیت پر) شکر ادا کرنے کے لیے کر رہے ہیں“۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 958]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 958
958 ۔ اردو حاشیہ: ➊ قرآن مجید میں بعض آیات ایسی آتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی فرمانبرداری اور ان کے سجدہ کرنے کا ذکر ہے یا ان میں تکبر کی مذمت کی گئی ہے یا اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، بندگی اور سجدے کی تعریف کی گئی ہے یا ان میں سجدے کا حکم ہے۔ ان آیات کو پڑھتے وقت ایک مومن شخص بے ساختہ سجدے میں گر پڑتا ہے۔ انہیں سجدے کی آیات کہا جاتا ہے اور اس سجدے کو سجدۂ تلاوت کہتے ہیں۔ اگر قاری سجدے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے سجدہ کرنا چاہیے، ویسے نہ گزر جائے۔ اگر سجدہ کرنے کی حالت میں نہیں تو سر جھکا لے اور اشارے سے سجدہ کرے، مثلاً: سائیکل یا گاڑی چلانے والا۔ نیچے اتر کر سجدہ کرنا ممکن ہو تو کیا ہی بات ہے۔ اگر کوئی شخص قرأت کر رہا ہو اور اس کے لیے سجدے کی استطاعت ہو، تو وہ بھی سجدہ کرے۔ سجدۂ تلاوت مستحب ہے۔ اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے۔ سجدۂ تلاوت کے تفصیلی احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: [سنن ابوداود اردو سجود القرآن، كا ابتدائيه، طبع دارالسلام، و ذخيرة العقبي شرح سنن النسائي: 196-190/12] ➋ سورۂ صٓ کا سجدہ امام شافعی رحمہ اللہ تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہاں آیت میں سجدے کا لفظ ہی نہیں، بس یہ الفاظ ہیں: « ﴿خَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ﴾ »[ص: 24: 38] جبکہ دیگر اہل علم اس سجدے کے قائل ہیں کیونکہ یہاں معنی تو سجدے ہی کا ہے اگرچہ لفظ «رَاكِعًا» کے ہیں۔ امام مالک بھی امام شافعی کے ہم نوا ہیں۔ ➌ حضرت داود علیہ السلام سے کوئی (اجتہادی) غلطی ہو گئی تھی جس کی تفصیل قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں نہیں ہے، لہٰذا ہمیں بھی اس کی کرید نہیں کرنی چاہیے۔ جب انہیں غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے بطور توبہ سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تو اس کے شکرانے کے طور پر ہم سجدہ کرتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 958
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 271
´سجود سہو وغیرہ کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سورۃ «ص» کا سجدہ ان میں سے نہیں ہے جن کا ذکر ضروری ہے، البتہ میں نے یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 271»
تخریج: «أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب سجدة ص، حديث:1069.»
تشریح: 1. اس سے معلوم ہوا کہ سورۂ صٓ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا ہے‘ البتہ آپ نے اس کا حکم نہیں فرمایا اور اس کی تاکید نہیں کی۔ 2. اس سے معلوم ہوا کہ بعض اعمال اگرچہ مسنون ہیں مگر ان کے بارے میں تاکید نہیں۔ وہ بھی سنت خیرالانام کے زمرے میں آتے ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 271
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 577
´سورۃ ”ص“ کے سجدے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ ص میں سجدہ کرتے دیکھا۔ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: یہ واجب سجدوں میں سے نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 577]
اردو حاشہ: 1 ؎: یہ نبی داؤد علیہ السلام تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 577
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:483
483- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۂ ص میں سجدۂ تلاوت کرتے ہوئے دیکھا ہے، تاہم یہ لازمی سجدہ نہیں ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:483]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سورۃ ص میں سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے، اگر کوئی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اگر کوئی سجدہ نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ عزائم سجود سے مراد وہ جود تلاوت میں جنھیں بجالانے کی تاکید کی گئی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 483
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1069
1069. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ ضروری نہیں، البتہ میں نے نبی ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1069]
حدیث حاشیہ: نسائی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سورۃ ص میں سجدہ کیا اور فرمایا کہ یہ سجدہ داؤد ؑ نے توبہ کے لیے کیا تھا ہم شکر کے طور پر یہ سجدہ کرتے ہیں اس حدیث میں ''لیس من عزائم السجود'' کا بھی یہی مطلب ہے کہ سجدہ تو داؤد ؑ کا تھا اور انہیں کی سنت پر ہم بھی شکر کے لیے یہ سجدہ کر تے ہیں۔ اللہ تعالی نے حضرت داؤد ؑ کی توبہ قبول کر لی تھی۔ والمراد بالعزائم ما وردت العزیمة علی فعله کصیغة الأمر الخ۔ (فتح الباري) یعنی عزائم سے مراد وہ جن کے لیے صیغہ امر کے ساتھ تاکید وارد ہوئی ہو۔ سورۃ ص کا سجدہ ایسا نہیں ہے، ہاں بطور شکر سنت ضرور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1069
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3422
3422. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ عزائم (ضروری) سجود میں سے نہیں ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس میں سجدہ کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3422]
حدیث حاشیہ: گوحدیث اس باب سےتعلق نہیں رکھتی مگر سورۂ ص میں حضرت داؤد کا بیا ن ہے اور اس میں سجدہ بھی حضرت داؤد کی توبہ قبول ہونے کےشکریہ میں ہے، اس مناسبت سے اس کوبیان کردیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3422
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1069
1069. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ ضروری نہیں، البتہ میں نے نبی ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1069]
حدیث حاشیہ: عزائم سجود سے مراد وہ سجودِ تلاوت ہیں جنہیں بجا لانے کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حم سجدہ، النجم، اقراء، الم تنزیل کے سجود عزائم سے ہیں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 315/2، و المصنف لابن أبي شیبة: 378/1، رقم: 4349) سورۂ ص کے سجدے کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ سجدہ عزائم سجود میں سے نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جن انبیاء کی پیروی کرنے کا حکم ہے ان میں حضرت داود ؑ ہیں، چونکہ انہوں نے سجدہ کیا تھا، اس لیے سورۂ ص میں سجدہ کرنا چاہیے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3421) سنن نسائی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدۂ ص کے متعلق فرمایا: ”حضرت داود ؑ کا یہ سجدہ بطور توبہ تھا اور ہم ان کی پیروی میں بطور شکر سجدہ کرتے ہیں۔ '' (سنن النسائي، الافتتاح، حدیث: 958) ابوداود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورۂ ص کو منبر پر تلاوت فرمایا، جب مقام سجدہ پر پہنچے تو نیچے اتر کر سجدہ کیا، لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ ادا کیا، پھر کسی اور دن اسے تلاوت فرمایا، لوگ حسب سابق سجدے کے لیے تیار ہوئے تو آپ نے فرمایا: ”یہ سجدہ تو ایک نبی کی توبہ کی بنا پر تھا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ تم سجدے کے لیے تیار ہو چکے ہو۔ “ اس لیے آپ منبر سے نیچے اترے اور سجدہ کیا۔ (سنن أبي داود، سجودالقرآن، حدیث: 1410) لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ ادا کیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سجدہ تو ہے لیکن اس کے متعلق تاکید نہیں ہے۔ (فتح الباري: 714/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1069
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3422
3422. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ عزائم (ضروری) سجود میں سے نہیں ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس میں سجدہ کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3422]
حدیث حاشیہ: 1۔ چونکہ سورہ ص میں حضرت داؤد ؑ اور ان کا سجدہ کرنے کا بیان ہے، اس مناسبت سے اس حدیث کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ 2۔ عزائم سجود کا مطلب یہ ہے کہ مؤکدات سجود سے نہیں، یعنی سورہ ص کا سجدہ ضروری نہیں بلکہ سجدہ شکر ہے۔ حضرت ابوسعیدخدری ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر سورہ ص تلاوت فرمائی، جب مقام سجدہ پر پہنچے تو اترے اور سجدہ کیا، پھر کسی اور دن اسے تلاوت فرمایا تو جب آیت سجدہ پر پہنچے تو لوگ سجدے کے لیے تیار ہوئے، آپ نے فرمایا: ”یہ تو ایک نبی کی توبہ کے نتیجے میں تھا لیکن میں نے تمھیں دیکھاہے کہ تم سجدے کے لیے تیار ہو، آپ اترے اور سجدہ کیا۔ “(سنن أبي داود، السجود، حدیث: 1410) 3۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ ص کا سجدہ مؤکدات سجود سے نہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3422
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4807
4807. حضرت عوام بن حوشب ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت مجاہد سے سورہ ص میں سجدہ کرنے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: میں نے بھی حضرت ابن عباس ؓ سے یہی سوال کیا تھا کہ اس سورت میں سجدہ کرنے کی دلیل کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: آیا تم یہ نہیں پڑھتے: ”ان کی نسل سے داود اور سلمان ہیں۔۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے ہدایت دی تھی، لہذا آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلیں۔“ حضرت داود ؑ بھی انہی انبیاء ؑ میں سے ہیں جن کی اتباع کا تمہارے نبی ﷺ کو حکم تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر یہ سجدہ کیا ہے۔ عُجَابٌ کے معنی ہیں: عجیب۔ القط کے معنی ہیں: صحیفہ، یعنی کاغذ کا پرچہ۔ یہاں نیکیوں کا صحیفہ مراد ہے۔ امام مجاہد نے کہا: فِى عِزَّةٍ کے معنی ہیں: تکبر اور سرکشی کرنے والے۔ ٱلْمِلَّةِ ٱلْـَٔاخِرَةِ سے مراد قریش کا دین ہے۔ الاختلاق سے مراد جھوٹ ہے۔ الاسباب سے مراد آسمان کے دروازوں میں ان کے راستے ہیں۔ جُندٌ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4807]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس سورت میں حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور وہ سمجھ گئے کہ ہم نے انھیں آزمایا ہے، پھر تو وہ اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گرپڑے اوررجوع کیا۔ “(ص: 24) عاجزی کرتے ہوئے گر پڑنے سے مراد ان کا سجدہ کرنا ہے۔ جب انھوں نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی اتباع میں سجدہ کیا، لہذا ہمیں بھی سجدہ کرنا چاہیے۔ 2۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: سورہ ص کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں، البتہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ (صحیح البخاري، سجود القرآن، حدیث: 1069)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4807