1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الافتتاح
کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
13. بَابُ : الصَّفِّ بَيْنَ الْقَدَمَيْنِ فِي الصَّلاَةِ
13. باب: نماز میں دونوں قدموں کے ملانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 893
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مَيْسَرَةَ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَأَى رَجُلًا يُصَلِّي قَدْ صَفَّ بَيْنَ قَدَمَيْهِ فَقَالَ:" خَالَفَ السُّنَّةَ وَلَوْ رَاوَحَ بَيْنَهُمَا كَانَ أَعْجَبَ إِلَيَّ".
ابوعبیدہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دونوں قدم ملا کر نماز پڑھ رہا ہے، تو انہوں نے کہا: اس نے سنت کی مخالفت کی ہے، اگر یہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھتا تو بہتر ہوتا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 893]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 9631) (ضعیف الإسناد) (ابو عبیدہ اور ان کے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہونے کی وجہ سے سنداً یہ روایت ضعیف ہے)»

وضاحت: ۱؎: سنداً اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے، مگر بات یہی صحیح ہے کہ نمازی اپنے دونوں قدموں کو آپس میں ملائے نہیں، کیونکہ اس کو جماعت میں اپنے بغل کے نمازی کے قدم سے قدم ملانا ہے، اگر منفرد ہے تب بھی اپنے قدموں کو آپس میں ملانے سے اس کو پریشانی ہو گی، الگ الگ رکھنے میں راحت ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 327

   سنن النسائى الصغرىخالف السنة ولو راوح بينهما كان أعجب إلي
   سنن النسائى الصغرىأخطأ السنة ولو راوح بينهما كان أعجب إلي
   سنن ابن ماجهيطلقها عند كل طهر تطليقة فإذا طهرت الثالثة طلقها وعليها بعد ذلك حيضة
   سنن ابن ماجهطلاق السنة أن يطلقها طاهرا من غير جماع
   سنن النسائى الصغرىطلاق السنة تطليقة وهي طاهر في غير جماع فإذا حاضت وطهرت طلقها أخرى فإذا حاضت وطهرت طلقها أخرى ثم تعتد بعد ذلك بحيضة