عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ طلاق سنی یہ ہے کہ عورت کو اس طہر میں ایک طلاق دے جس میں اس سے جماع نہ کیا ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2020]
وضاحت: ۱؎: تاکہ عورت کو عدت کے حساب میں آسانی ہو، اور اسی طہر سے عدت شروع ہو جائے، تین طہر کے بعد وہ مطلقہ بائنہ ہو جائے گی، عدت ختم ہونے کے بعد وہ دوسرے سے شادی کر سکتی ہے، طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، اور شرط یہ ہے کہ اس طہر سے پہلے جو حیض تھا اس میں طلاق نہ دی ہو، یا حمل کی حالت میں جب حمل ظاہر ہو گیا ہو اور اس کے سوا دوسری طرح طلاق دینا (مثلاً حیض کی حالت میں یا طہر کی حالت میں جب جماع کر چکا ہو یا حمل کی حالت میں جب وہ ظاہر نہ ہوا ہو، لیکن شبہ ہو، اسی طرح تین طلاق ایک بار دینا حرام ہے اور اس کا ذکر آگے آئے گا) اور حدیث میں جو ابن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ اس طہر کے بعد دوسرے طہر میں طلاق دیں، تو اس میں یہ حکمت تھی کہ طلاق سے رجعت کا علم نہ ہو تو ایک طہر تک عورت کو رہنے دے، اور بعضوں نے کہا کہ یہ سزا ان کے ناجائز فعل کی دی، اور بعضوں نے کہا یہ طہر اسی حیض سے متعلق تھا جس میں طلاق دی گئی تھی اس لئے دوسرے طہر کا انتظار کرے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (3423۔3424) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 451