الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب المساجد
کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل
32. بَابُ : ذِكْرِ نَهْىِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَنْ أَنْ يَبْصُقَ الرَّجُلُ بَيْنَ يَدَيْهِ أَوْ عَنْ يَمِينِهِ وَهُوَ فِي صَلاَتِهِ
32. باب: نماز میں سامنے یا داہنی طرف تھوکنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 726
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَحَكَّهَا بِحَصَاةٍ وَنَهَى أَنْ يَبْصُقَ الرَّجُلُ بَيْنَ يَدَيْهِ أَوْ عَنْ يَمِينِهِ، وَقَالَ:" يَبْصُقُ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ الْيُسْرَى".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی قبلہ (والی دیوار پر) بلغم دیکھا تو اسے کنکری سے کھرچ دیا، اور لوگوں کو اپنے سامنے اور دائیں طرف تھوکنے سے روکا، اور فرمایا: (جنہیں ضرورت ہو) وہ اپنے بائیں تھوکے یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 726]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة 34 (408)، 35 (410)، 36 (414)، صحیح مسلم/المساجد 13 (547)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المساجد 10 (761)، (تحفة الأشراف: 3997)، مسند احمد 3/6، 24، 58، 88، 93، سنن الدارمی/الصلاة 116 (1438) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخارييبزق الرجل بين يديه أو عن يمينه لكن عن يساره أو تحت قدمه اليسرى
   سنن أبي داودأيسر أحدكم أن يبصق في وجهه إن أحدكم إذا استقبل القبلة فإنما يستقبل ربه والملك عن يمينه لا يتفل عن يمينه ولا في قبلته وليبصق عن يساره أو تحت قدمه فإن عجل به أمر فليقل هكذا ووصف لنا ابن عجلان ذلك أن يتفل في ثوبه ثم يرد بعضه على بعض
   سنن النسائى الصغرىيبصق عن يساره أو تحت قدمه اليسرى
   مسندالحميدي
   مسندالحميديأيحب أحدكم أن يبزق في وجهه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 726 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 726  
726 ۔ اردو حاشیہ: دائیں طرف تھوکنا اس لیے منع ہے کہ دائیں طرف فرشتۂ رحمت ہوتا ہے اور بائیں طرف تھوکنا اس وقت جائز ہو گا جب کوئی دوسرا اس جانب نہ ہو کیونکہ یہ اس کی داہنی جانب ہو گی۔ یا قدم کے نیچے تھوک لے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کو ان مساجد پر محمول کیا جائے گا جہاں زمین کچی ہو کہ تھوکنے کے بعد اسے دفن کرنا بھی آسان ہو، نیز اس سے کسی کو اذیت بھی نہ پہنچے، یعنی ان خاص حالات کو بھی مدنظر رکھا جائے جن میں اس قسم کے احکام صادر ہوئے۔ آج کل تقریباً تمام یا اکثر مساجد پکی ہی بنی ہوتی ہیں بلکہ فرش پر سنگ مرمر لگا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ کچھ ایسی بھی ہیں جہاں چٹائیاں یا سرے سے پوری مسجد میں عمدہ اور نفیس قالین بچھپے ہوتے ہیں۔ وہاں تھوکنا یقیناًً نامناسب بلکہ تمام اہل مسجد کے لیے انتہائی اذیت کا باعث ہو گا۔ ممکن ہے آئندہ پیش آنے والے حالات کے پیش نظر ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے وغیرہ میں تھوک کر مسلنے کی ہدایت فرمائی ہو۔ آج کل اسی صورت کو اپنانا چاہیے تاکہ ضرورت بھی پوری ہو جائے اور مسجد بھی صاف رہے۔ (مزید دیکھیے، حدیث: 724)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 726   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:414  
414. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے مسجد کے قبلے کی طرف بلغم دیکھا تو اسے ایک سنگریزے سے دور کر دیا، پھر آپ نے سامنے کی سمت یا دائیں طرف تھوکنے سے منع فرمایا اور بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکنے کی اجازت دی۔ اس روایت کے ایک طریق میں امام زہری ؒ نے اپنے شیخ حمید طویل سے سماع کی تصریح بھی کی ہے، وہ ابوسعید خدری ؓ سے مذکورہ روایت کی طرح بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:414]
حدیث حاشیہ:

عنوان میں بصاق (تھوک)
اور اس روایت میں بلغم کے ذکر سے امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تھوک بلغم اور ناک کی رطوبت وغیرہ تمام ہی ناگوار اور قابل نفرت چیزیں ہیں، ان ناپسندیدہ چیزوں کا مسجد کے بارے میں ایک ہی حکم ہے۔
(فتح الباري: 661/1)

اس روایت میں بائیں طرف تھوکنے کے الفاظ سے امام بخاری ؒ نے ایک اختلاف کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
قاضی عیاض ؒ کے نزدیک مسجد میں تھوکنا جائز ہے، لیکن اس کا دفن نہ کرنا گناہ ہے، جبکہ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس گناہ کی تلافی اس کا دفن کردینا ہے۔
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان سے قاضی عیاض کے موقف کے راجح ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
واللہ أعلم۔

روایت آخر میں ایک سند نقل کر کے امام بخاری ؒ نے یہ بھی وضاحت کردی ہے کہ روایت اگرچہ بصیغہ عن بیان ہوئی ہے، لیکن امام زہری ؒ کا سماع اپنے شیخ حمید بن عبدالرحمٰن سے ثابت ہے، لہٰذا اس میں تدلیس کا کوئی شبہ نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 414