جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی عبد مناف! تم کسی کو رات یا دن کسی بھی وقت اس گھر کا طواف کرنے، اور نماز پڑھنے سے نہ روکو“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 586]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/المناسک 53 (1894)، سنن الترمذی/الحج 42 (868)، سنن ابن ماجہ/إقامة 149 (1254)، (تحفة الأشراف: 3187)، مسند احمد 4/80، 81، 84، سنن الدارمی/المناسک 79 (1967)، ویأتي عند المؤلف في المناسک 137 (برقم: 2927) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 586
586 ۔ اردو حاشیہ: فقہائے محدثین نے اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ بیت اللہ میں نفل نماز کے لیے کوئی وقت مکروہ نہیں ہے کیونکہ یہ شرف و عظمت کی جگہ ہے۔ لوگ وہاں ہر وقت مستفید ہوتے ہوں۔ وہاں کسی بھی وقت کی نماز غیرمسلمین کے مشابہ نہیں ہو سکتی، لہٰذا صرف طواف کے بعد ہی دو رکعتوں کی اجازت نہیں بلکہ مطلقاً نوافل پڑھنے کی رخصت ہے جیسا کہ اس مفہوم کی مؤید حدیث ابن حبان میں بایں الفاظ آتی ہے: «یا بني عبدالمطلب! إن کان الیکم من الأمر شی فلا أعرفن أحدا منھم أن یمنع من یصلي عند البیت أی ساعة من لیل اونھار»”اے بنی عبدالمطلب! اگر تمہارے پاس کوئی اختیار آجائے تو میں ان میں سے کسی (صاحب اختیار) کو نہ جانوں جو منع کرے اس شخص کو جو بیت اللہ میں دن یا رات کی کسی گھڑی میں نماز پڑھتا ہے۔“[صحیح ابن حبان: 4؍420، حدیث: 1552] اس حدیث سے ان مکروہ اوقات میں عام نوافل پڑھنے کی بھی اجازت ہے، لہٰذا اس حدیث سے نہی کی احادیث کی تخصیص کی جائے گی۔ اس طرح سب روایات پر عمل ہو جائے گا۔ لیکن احناف نے نہی کی روایات کی بنا پر اس حدیث اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کو چھوڑ دیا ہے۔ اور اس حدیث کی تاویل کی ہے کہ آپ نے حرم کے متولی حضرات کو نمازیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکنے سے منع کیا ہے، نہ کہ نمازیوں کو ہر وقت نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ مگر یہ اوپر کی صحیح تصریح حدیث کے خلاف ہے، نیز اس سے صریح جواز کی روایات کا ترک لازم آتا ہے۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ عام نہی کی روایات کو ان روایات سے خاص کر کے سب پر عمل کیا جائے؟ غور فرمائیں۔ احادیث میں چونکہ صرف بیت اللہ کی تخصیص ہے، اس لیے اس اجازت میں حرم یا پورا مکہ شامل نہیں ہے، یہاں مکہ سے بظاہر بیت اللہ ہی مراد ہے جیسا کہ احادیث میں آتا ہے اور جس حدیث میں پورے مکہ کا استثنا ہے، وہ سنداً ضعیف ہے، اس کی سند میں عبداللہ بن مؤمل ضعیف راوی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 586
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 137
´خانہ کعبہ میں پڑھے جانے والے نوافل` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: يا بني عبد مناف لا تمنعوا احدا طاف بهذا البيت وصلى اية ساعة شاء من ليل او نهار . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے عبد مناف کی اولاد! بیت اللہ کے طواف کرنے والے کسی کو مت منع کرو (کہ وہ طواف نہ کرے) اور نہ کسی نماز پڑھنے والے کو (نماز پڑھنے سے منع کرو) خواہ وہ شب و روز کی کسی گھڑی میں یہ کام کرے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 137]
� لغوی تشریح: «يَابَنِي عَبْدِ مَنَافٍ» عبد مناف کی اولاد کو مخاطب اس لیے کیا ہے کہ یہ اس وقت کعبہ کے متولی تھے۔ «وَصَلّٰي أَيَّةَ سَاعَةٍ . . . إلخ» یہ الفاظ تین ممنوعہ اوقات میں بھی نماز پڑھنے کی اجازت پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ حدیث اس عام حکم میں تخصیص کر دیتی ہے، یعنی بیت اللہ میں ہر وقت نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث میں مذکور وہ کون سی نماز ہے جسے ادا کرنے کی اجازت حکماً دی جا رہی ہے؟ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد طواف کعبہ کے بعد پڑھے جانے والے نوافل ہیں، عام نوافل مراد نہیں۔ مگر ابوداود میں مروی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے عام نوافل بھی مراد ہیں۔ [سنن أبى داود، المناسك، باب الطواف بعد العصر، حديث: 1894] امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ ➋ جن تین اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے، جمہور علماء اسے خانہ کعبہ میں پڑھے جانے والے نوافل پر منطبق نہیں کرتے۔ وہ اس حدیث سے ان اوقات میں بھی بیت اللہ شریف میں نماز وغیرہ پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔
راویٔ حدیث: (سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ) ان کی کنیت ابومحمد یا ابوامیہ ہے۔ ”جبیر“ تصغیر ہے جابر سے۔ پورا نام جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل قرشی ہے۔ بڑے حلیم الطبع اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ خاندان قریش کے نسب ناموں کو جانتے تھے۔ فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کر کے مدینہ تشریف لے آئے۔ ان کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ 54، 57 یا 59 ہجری کو مدینے میں فوت ہوئے۔ عبدمناف، مناف کا غلام۔ مناف مشہور بت تھا۔ والدہ نے اس کا خادم بنا دیا تھا اس وجہ سے عبدمناف کہلایا ورنہ اس کا اصل نام مغیرہ تھا، کنیت ابوعبدتمس تھی۔ بنومخزوم اور بنو عبد مناف دونوں سے تعلق تھا۔ یاد رہے یہ عبد مناف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جد امجد تھا۔ قریش کا ذی وقار سردار شمار ہوتا تھا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 137
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1894
´عصر کے بعد طواف کرنے کا بیان۔` جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس گھر (کعبہ) کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے کسی کو مت روکو، رات اور دن کے جس حصہ میں بھی وہ کرنا چاہے کرنے دو۔“ فضل کی روایت کے میں ہے: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يا بني عبد مناف لا تمنعوا أحدا»”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنی عبد مناف! کسی کو مت روکو۔“[سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1894]
1894. اردو حاشیہ: چونکہ صحیح احادیث میں ایک عام حکم وارد ہے۔کہ نماز فجر کے بعد نماز نہیں حتیٰ کہ سورج خوب اچھی طرح واضح ہوجائے اور عصر کے بعد نماز نہیں حتیٰ کے سورج غروب ہوجائے۔(صحیح البخاری۔مواقیت الصلاۃ حدیث 586 وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 827) اس لئے یہ فرمان اس کا مخصص ہے کہ بیت اللہ میں عصر کے بعد اور اسی طرح فجر کے بعدطواف جائز ہے۔چنانچہ اس کے بعد ان ممنوعہ اوقات میں طواف کی رکعتیں بھی جائز ہوں گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1894
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2927
´طواف کے ہر وقت جائز ہونے کا بیان۔` جبیر بن مطعم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی عبد مناف! تم اس گھر کے طواف کرنے سے، اور اس میں نماز پڑھنے سے کسی کو نہ روکو، رات اور دن کے جس حصہ میں وہ بھی چاہے۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2927]
اردو حاشہ: (1) عبد مناف کی اولاد سے مراد رسول اللہﷺ کا اپنا خاندان ہے۔ ان کے ذمے بیت اللہ کی بہت سی خدمات تھیں۔ انھیں بیت اللہ کا متولی سمجھا جاتا تھا۔ (2) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ بیت اللہ میں طواف اور نماز کے لیے کوئی وقت مکروہ اور ممنوع نہیں۔ طواف کے بارے میں تو اتفاق ہے کہ یہ ہر وقت جائز ہے مگر نماز کے بارے میں اختلاف ہے۔ احناف کا خیال ہے کہ مکروہ اوقات میں بیت اللہ میں بھی نماز منع ہے، مثلاً: صبح کی نماز سے لے کر سورج اونچا آنے تک اور عصر کی نماز سے غروب شمس تک۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے طواف کی دو رکعتوں کو ہر وقت جائز قرار دیا ہے کیونکہ جب طواف ہر وقت جائز ہے تو اس کا تتمہ بھی ہر وقت جائز ہوگا۔ اور یہ معقول استدلال ہے۔ راجح بات یہی ہے کہ طواف کی طرح نماز بھی ہر وقت جائز ہے۔ یہ اجازت صرف طواف کی رکعتوں کے بارے میں نہیں بلکہ مطلقاً نفل نماز کے بارے میں ہے۔ (3) معلوم ہوا بیت اللہ کو کسی وقت بند نہیں کیا جا سکتا۔ نماز اور طواف کے لیے ہر وقت کھلا رہنا چاہیے۔ عام مساجد میں بھی یہی ہونا چاہیے بشرطیکہ کسی نقصان وغیرہ کا خطرہ نہ ہو، ورنہ مجبوراً تالا لگایا جا سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ قیمتی چیزیں یا فالتو اشیاء اندر والے حصے میں ہوں تاکہ ضرورت کے وقت صرف اسے بند کرنا پڑے۔ ایک بیرونی حصہ نماز کے لیے ہر وقت کھلا رہے۔ مساجد اللہ کے گھر ہی رہنے چاہئیں نہ کہ لوگوں کے گھروں کی طرح مقفل، تاکہ نمازی کسی بھی وقت فرض یا نفل پڑھ سکیں، البتہ بیت اللہ کعبہ کو تالا لگایا جائے گا کیونکہ اس کے اندر عموماً نہ نماز پڑھی جاتی ہے اور نہ طواف کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ باہر ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2927
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1254
´مکہ میں ہر وقت نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان۔` جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی عبدمناف! دن و رات کے جس وقت میں جو کوئی خانہ کعبہ کا طواف کرنا یا نماز پڑھنا چاہے اسے نہ روکو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1254]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کےلئے کوئی وقت مقرر نہیں نہ کسی وقت طواف کرنا منع ہے۔
(2) طواف کعبہ کے سات چکر پورے کرکے دو رکعت نماز ادا کرنی ہوتی ہے۔ اس نماز کا تعلق چونکہ طواف سے ہے اس لئے یہ بھی ہر وقت ادا کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے کوئی وقت مکروہ نہیں۔
(3) ۔ حدیث میں صرف مسجد حرام کے اندر ہر وقت نماز کی اجازت کا ذکر ہے۔ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پورے شہر مکہ میں اس کی اجازت سمجھی ہے۔ ممکن ہے مکہ میں ہر وقت نماز جائز کہنے سے ان کامقصد مسجد حرام میں ہروقت نماز کا جواز ہو۔ واللہ أعلم۔
(4) طواف کے ساتھ نماز کے ذکر سےاستدلال کیا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد طواف کی دو رکعتیں ہر وقت ادا کرنے کی اجازت مقصود ہے۔ تاہم لفظ کے عموم کو پیش نظر رکھیں۔ تو عام نوافل کی ادایئگی کوبھی جائز کہا جا سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1254
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 868
´طواف کے بعد کی دو رکعت کو عصر کے بعد اور فجر کے بعد پڑھنے کا بیان۔` جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی عبد مناف! رات دن کے کسی بھی حصہ میں کسی کو اس گھر کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکو۔“[سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 868]
اردو حاشہ: 1؎: اور یہی ارجح و اشبہ ہے۔
2؎: جو اس باب میں مذکور ہے، اس کا ماحصل یہ ہے کہ مکے میں مکروہ اور ممنوع اوقات کا لحاظ نہیں ہے۔ (خاص کر طواف کے بعد دو رکعتوں کے سلسلے میں) جب کہ عام جگہوں میں فجر و عصر کے بعد کوئی نفل نماز نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 868
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:571
571- سیدنا جبیر بنن معطم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے بنو عبدالمطلب (راوی کو شک ہے، شاید یہ الفاظ ہیں) اے بنو عبد مناف! اگر تم اس معاملے کے نگران ہو، تو کسی شخص کو اس گھر کا طواف کرنے یا نماز کرنے سے منع نہ کرنا، خواہ رات یا دن کا کوئی بھی وقت ہو۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:571]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بیت اللہ میں نماز کے ممنوع اوقات لاگو نہیں ہوتے، بلکہ وہاں جس وقت بھی کوئی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے، نماز کے ممنوع اوقات کا تعلق بیت اللہ کے علاوہ کے ساتھ ہے، نیز اس حدیث میں ایک پیش گوئی ہے کہ بیت اللہ کا طواف چوبیس گھنٹے کیا جائے گا، اور بیت اللہ میں چوبیس گھنٹے نماز پڑھی جائے گی، یہ کتنی بڑی سچائی ہے جو آج پوری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے (والحمد للہ)۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 571