أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قال: أَخْبَرَنِي أَبِي، قال: أَخْبَرَنِي ابْنُ عُمَرَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تُشْرِقَ، وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَغْرُبَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز کو مؤخر کرو، یہاں تک کہ وہ روشن ہو جائے، اور جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 572]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 572
572 ۔ اردو حاشیہ: کسی وجہ اور سبب کے بغیر عین طلوع اور غروب کے وقت نماز شروع کرنا درست نہیں ہے، ہاں! اگر پہلے سے پڑھ رہا ہے تو جاری رکھے جیسے کہ احادیث: 551تا559 میں ذکر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 572
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 589
´اس شخص کی دلیل جس نے فقط عصر اور فجر کے بعد نماز کو مکروہ رکھا ہے` «. . . عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " أُصَلِّي كَمَا رَأَيْتُ أَصْحَابِي يُصَلُّونَ، لَا أَنْهَى أَحَدًا يُصَلِّي بِلَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ مَا شَاءَ، غَيْرَ أَنْ لَا تَحَرَّوْا طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوبَهَا " . . . .» ”. . . ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ جس طرح میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا، میں بھی اسی طرح نماز پڑھتا ہوں، کسی کو روکتا نہیں۔ دن اور رات کے جس حصہ میں جی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھا کرو۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَنْ لَمْ يَكْرَهِ الصَّلاَةَ إِلاَّ بَعْدَ الْعَصْرِ وَالْفَجْرِ:: 589]
تشریح: عین زوال کے وقت بھی نماز پڑھنے کی ممانعت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو کوئی ایسی روایت اس باب میں نہیں ملی جو ان کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 589
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 589
589. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں انہی اوقات میں نماز ادا کرتا ہوں جن میں میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، البتہ میں کسی کو نہیں روکتا وہ دن اور رات کے جس حصے میں چاہیں نماز پڑھیں لیکن طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:589]
حدیث حاشیہ: عین زوال کے وقت بھی نماز پڑھنے کی ممانعت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مگرمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کو کوئی ایسی روایت اس باب میں نہیں ملی جو ان کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 589
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 198
´عصر کے بعد اور طلوع آفتاب تک نماز کی ممانعت` «. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يتحرى احدكم فيصلي عند طلوع الشمس ولا عند غروبها . . .» ”. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی جان بوجھ کر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت (نفل) نماز پڑھنے کی کوشش نہ کرے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 198]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 585، ومسلم 828، من حديث مالك به] تفقہ: ① سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے وقت بغیر سبب والی نفل نماز منع ہے۔ ② مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے حدیثِ سابق: 96 ③ جو لوگ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت (نفل) نماز پڑھتے تو انھیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مارتے تھے۔ ديكهئے: [الموطا 221/1 ح 518 وسنده صحيح] ④ فرض نمازیں، کفایہ ہوں یا عین اور مسنون نمازیں ان ممنوعہ اوقات میں (دوسرے دلائل کی رو سے) جائز ہیں۔ دیکھئے التمہید [130/14]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 196
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 564
´سورج نکلتے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔“[سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 564]
564 ۔ اردو حاشیہ: گویا ان اوقات میں قصداً نماز شروع کرنا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص پہلے سے نماز پڑھ رہا ہے، اسی دوران میں سورج طلوع ہو جائے یا غروب ہو جائے یا سر پر آجائے تو نماز فاسد نہ ہو گی، وہ نماز جاری رکھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 564
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1415
´جو شخص فجر کے بعد سجدہ والی آیت پڑھے تو وہ کب سجدہ کرے؟` ابوتمیمہ طریف بن مجالد ہجیمی کہتے ہیں کہ جب ہم قافلہ کے ساتھ مدینہ آئے تو میں فجر کے بعد وعظ کہا کرتا تھا، اور (سجدہ کی آیت پڑھنے کے بعد) سجدہ کرتا تھا تو مجھے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے تین مرتبہ منع کیا، لیکن میں باز نہیں آیا، آپ نے پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی لیکن کسی نے سجدہ نہیں کیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1415]
1415. اردو حاشیہ: یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس لئے اوقات مکروہ میں نماز تو یقینا ً ناجائز ہے۔ مگر سجدہ تلاوت نماز نہیں ہے۔ بنا بریں اوقات مکروہہ میں سجدہ تلاوت جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1415
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:681
681- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں کسی بھی شخص کو رات یا دن کے کسی بھی وقت میں نماز ادا کرنے سے منع نہیں کرتا، میں ویسا ہی کرتا ہوں جیسا میں نے اپنے ساتھیوں کو کرتے ہوئے دیکھا ہے، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”تم لوگ بطور خاص سورج طلوع ہونے کے قریب یا غروب ہونے کے قریب نماز ادا کرنے کی کوشش نہ کرو۔“ سفیان سے کہا گیا: یہ روایت تو ہشام کے حوالے سے نقل کی گئی ہے، تو وہ بولے: میں نے ہشام کو اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کبھی نہیں سنا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:681]
فائدہ: اس حدیث میں نماز پڑھنے کے دو ممنوع اوقات بیان کیے گئے ہیں۔ ① طلوع شمس کا وقت۔ ② غروب شمس کا وقت۔ ③ تیسرا وقت جس میں نماز پڑھنا منع ہے وہ ہے جب سورج سر پر ہو (زوال)۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 683
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1924
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص طلوع شمس اور غروب شمس کے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1924]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: انسان فجرکے بعد یا عصرکے بعد شعور اور ارادہ سے بیٹھا رہےاور جب سورج نکلنے لگے یا ڈوبنے لگے تو اٹھ کر نماز پڑھنا شروع کر دے تو یہ جائز نہیں ہے لیکن اگر کسی سبب کی بنا پر تاخیر ہوگئی مثلاً وہ ان اوقات میں بیدار ہوا اور اس نے غیر شعوری طور پر ان اوقات میں عصر یا فجر کی نماز پڑھنی شروع کردی تو وہ اپنی نماز مکمل کر سکے گا۔ بشرطیکہ طلوع اور غروب سے پہلے ایک رکعت پڑھ سکتا ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1924
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1925
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نماز کےلیے طلوع شمس کا قصد نہ کرو اور نہ اس کے غروب کا، کیونکہ سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1925]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جب سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے تو آفتاب کے پجاری اس کی عبادت کرتے ہیں اس لیے شیطان اور اس کے چیلے چانٹے ان اوقات میں سورج کے مقابل اپنا سر کھڑا کر کے بزعم خویش، خوش ہوتے ہیں کہ ہماری عبادت ہو رہی ہے اس لیے ان اوقات میں کفار کی مشابہت سے بچانے کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ کہ وہ ان اوقات میں نماز پڑھنے سے گریز کریں اور شیطان کو خوشی اور مسرت کا موقع فراہم نہ کریں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1925
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:582
582. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت اپنی نمازیں ادا کرنے کی کوشش نہ کیا کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:582]
حدیث حاشیہ: بعض اہل علم کا خیال ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی مذکورہ حدیث حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث سابق کی تفسیر ہے، یعنی نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نماز پرھنے کی کراہت اس شخص کےلیے ہے جو دیدہ دانستہ طلوع غروب کے وقت نماز پڑھنے کا انتطار کرتا رہے اور قصدا ان اوقات میں نماز پڑھے۔ ہاں! اگراتفاقا ایسا ہوجائے تو ممنوع نہیں۔ انھوں نے اپنے موقف کی تائید میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث پیش کی ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت عمر ؓ کو وہم ہوا کہ وہ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے تشدد کرتے ہیں، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے مطلقا نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ رسول الله ﷺ نے قصدا طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1931، (833)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 582
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:583
583. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب آفتاب کا کنارہ طلوع ہونے لگے تو نماز موقوف کر دو تا آنکہ سورج بلند ہو جائے اور جب سورج کا کنارہ ڈوبنے لگے تو بھی نماز موقوف کر دو تا آنکہ آفتاب پورا چھپ جائے۔“(ہشام سے روایت کرنے میں) عبدہ بن سلیمان نے (یحییٰ بن سعید کی) متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:583]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ میں (ابن عمر ؓ) دن اور رات کے کسی حصے میں دوسروں کو نماز پڑھنے سے نہیں روکتا لیکن انھیں چاہیے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے اجتناب کریں۔ (صحیح البخاري، فضل الصلاة في مسجد مکة والمدینة: حدیث 1192) ایک دوسری روایت میں اس کی وجہ بایں الفاظ بیان کی گئی ہے کہ تم طلوع شمس اور غروب شمس کو اپنی نمازوں کےلیے متعین نہ کرو، کیونکہ اس وقت سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان سے طلوع (وغروب) ہوتا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3273) اسی طرح ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس وقت کفار سورج کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1930 (832) ان روایات سے اس نہی کی علت معلوم ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان اوقات میں نمازپڑھنے سے منع کیا گیاہے۔ (2) حدیث کے آخر میں جس متابعت کا ذکر ہے، اسے امام بخاری ؒ نے کتاب بدء الخلق میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3272)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 583
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:585
585. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی بھی طلوع آفتاب کے وقت اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی کوشش نہ کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:585]
حدیث حاشیہ: کسی چیز کے حصول کےلیے کوشش اور دوڑ دھوپ کرنا تحری کہلاتا ہے۔ سورج کی عبادت کرنے والے کفار طلوع و غروب کے وقت بڑے اہتمام سے عبادت کرتے تھے۔ اہل ایمان کو اس بات سے منع کر دیا گیا ہےکہ کوئی آدمی طلوع وغروب کے وقت نماز پڑھنے کا اہتمام کرے تاکہ کفار کے ساتھ کسی بھی پہلو سے تشبیہ نہ ہو، البتہ اگر کوئی انسان ان اوقات میں اپنی نیند سے بیدار ہوا ہویا اسے اپنی بھولی ہوئی نماز یاد آئی ہوتو اسے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ حدیث میں ہے: جو شخص نماز سے سویا رہا یا نماز ادا کرنا بھول گیا تو وہ جب بھی بیدار ہویا اسے جب بھی یاد آئے تو پڑھ لے۔ (عمدة القاري: 111/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 585
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:589
589. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں انہی اوقات میں نماز ادا کرتا ہوں جن میں میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، البتہ میں کسی کو نہیں روکتا وہ دن اور رات کے جس حصے میں چاہیں نماز پڑھیں لیکن طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:589]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1629) دراصل امام بخاری ؒ کے نزدیک ممنوع اوقات صرف دو ہیں: ایک نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک، دوسرا نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔ ان اوقات میں عین طلوع آفتاب اور عین غروب آفتاب بھی شامل ہیں، البتہ عین دوپہر کا وقت ممنوعہ اوقات میں شامل نہیں، حالانکہ اس کے متعلق متعدد احادیث ہیں، چنانچہ حدیث عمرو بن عبسہ صحیح مسلم میں، حدیث ابوہریرہ ابن ماجہ اور سنن بیہقی میں، حدیث صنابحی موطا امام مالک میں اور عقبہ بن عامر کی حدیث صحیح مسلم میں، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ عین دوپہر کے وقت نماز پڑھنا منع ہے۔ کچھ ضعیف احادیث بھی ہیں، اس بنا پر ائمۂ ثلاثہ اور جمہور محدثین نے وقت استوا کو ممنوعہ اوقات میں شامل کیا ہے۔ امام مالک ؒ نے اس کے خلاف موقف اختیار کیا ہے، فرماتے ہیں: میں نے اہل علم کودیکھا ہے۔ وہ بڑے اہتمام سے دوپہر کے وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔ انھوں نے حدیث صنابحی ذکر کی ہے، لیکن اسے ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل اعتنا خیال نہیں کیا، یا اہل مدینہ کے عمل کی وجہ سے اسے قابل حجت خیال نہیں کیا۔ امام شافعی نے دوپہر کے وقت کو اوقات ممنوعہ میں شمارکیا ہے لیکن وہ جمعے کے دن کو اس سے مستثنٰی کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت نے جمعے کے دن جلدی جلدی مسجد میں آنے کے متعلق کہا ہے اور امام کے آنے تک نماز پڑھنے کی تلقین کی ہے اور امام زوال آفتاب کے بعد آتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عین دوپہر کا وقت نماز کےلیے ممنوعہ اوقات میں سے نہیں۔ (فتح الباري: 85/2) لیکن جمعے کا یہ استثنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہمارے نزدیک متعدد احادیث کے پیش نظر ممنوعہ اوقات پانچ ہیں: ٭نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک۔ ٭عین طلوع آفتاب۔ ٭نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔ ٭عین غروب آفتاب۔ ٭ عین دوپہر کا وقت جب سورج سر پر ہو۔ ان اوقات میں غیر سببی نوافل پڑھنا منع ہیں۔ والله أعلم. (2) بعض حضرات نے اوقات مکروہ کے درمیان کچھ فرق بیان کیا ہے، عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنا مکروہ ہے اور عین طلوع وغروب کے وقت نماز میں مشغول ہونا حرام ہے، کیونکہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھی تھی، اگر حرام ہوتی تو آپ کیوں پڑھتے؟ گویا آپ کا عمل بیان جواز کے لیے ہے۔ واضح رہے کہ عصر کے بعد نماز کے ممنوعہ وقت کی تحدید میں علماء کا اختلاف ہے، چنانچہ جمہور فقہاء کے نزدیک قضا اور سببی نماز کے علاوہ مطلق طور پر عصر کے بعد نماز جائز نہیں۔ البتہ امام شافعی ؒ نے ظہر کی سنت رہ جانے کی صورت میں عصر کے بعد پڑھنے کی اجازت دی ہے، تاہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت، متعدد تابعین اور بہت سے علماء کے نزدیک نماز عصر کے بعد جب تک سورج بلند، سفید اور چمکدار ہو، نفلی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ان کے ہاں عصر کے بعد نماز کی نہی مطلق نہیں بلکہ سورج زرد ہونے کے ساتھ مقید ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا مگر جبکہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 574) اس کے متعلق تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔ (3) ان ممنوعہ اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت اوقات اصلیہ کے اعتبار سے ہے۔ ان کےعلاوہ بھی چندایک مواقع پر نوافل میں مصروف ہونا منع ہے، مثلاً: ٭جب نماز کے لیے تکبیر کہہ دی جائے۔ ٭ جب امام خطبے کےلیے منبر پر چڑھ جائے۔ (الا یہ کہ کوئی اسی وقت مسجد میں آیا ہو) ٭ جب فرض نماز کی جماعت ہورہی ہو۔ ٭ مالکیہ کے نزدیک جمعے کےبعد لوگوں کے روزانہ ہونے تک۔ ٭احناف کے نزدیک نماز مغرب سے پہلے، اگرچہ حدیث میں اس کا بین ثبوت ملتا ہے جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ (فتح الباري: 84/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 589