زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص سے جو بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا تھا حرہ کی نالیوں کے سلسلہ میں ان کا جھگڑا ہو گیا۔ وہ دونوں ہی اس سے اپنے کھجوروں کے باغ کی سنیچائی کرتے تھے۔ انصاری نے کہا: پانی چھوڑ دو وہ اس سے گزر کر چلا جائے، انہوں نے پانی چھوڑنے سے انکار کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زبیر! پہلے سنیچائی کرو، پھر پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو“، انصاری کو غصہ آ گیا وہ بولا: اللہ کے رسول! وہ (زبیر) آپ کے پھوپھی زاد (بھائی) ہیں نا؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۱؎، پھر فرمایا: ”زبیر! سینچائی کرو، پھر پانی اس قدر روکو کہ میڈوں تک ہو جائے“، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو ان کا پورا پورا حق دلایا، حالانکہ اس سے پہلے آپ نے جو مشورہ دیا تھا اس میں ان کا بھی فائدہ تھا اور انصاری کا بھی۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصاری نے غصہ دلایا تو آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ کو صریح حکم دے کر ان کا حق دلا دیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے: «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم»”نہیں، آپ کے رب کی قسم! وہ مومن نہیں یہاں تک کہ وہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو حکم تسلیم نہ کر لیں“(النساء: ۶۵)(اس حدیث کے دو راوی ہیں) اس واقعہ کو بیان کرنے میں ایک کے یہاں دوسرے کے بالمقابل کچھ کمی بیشی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5409]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3630)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الشرب والمساقاة6-8 (2360- 2362)، والصلح 12 (2708)، و تفسیر سورة النساء 12 (4585)، صحیح مسلم/الفضائل 36 (2357)، سنن ابی داود/الأقضیة 31 (3637)، سنن الترمذی/الأحکام 26 (1363)، وتفسیر سورة النساء، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (15)، والرہون20 (2480)، مسند احمد (1/165)، ویأتی عند المؤلف برقم: 5418 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہی باب سے مطابقت ہے کہ غصہ کی حالت میں ایک فیصلہ صادر فرمایا، چونکہ آپ امین تھے اس لیے آپ کو غصہ کی حالت میں بھی فیصلہ کرنے کا حق تھا، عام قاضیوں کو یہ حق نہیں ہے۔
اسق يا زبير ثم أرسل إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله آن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال اسق ثم احبس حتى يبلغ الجدر فاستوعى رسول الله حينئذ حقه للزبير وكان رسول الله قبل ذلك أشار على الزبير برأي سعة له وللأنصاري فلما أحفظ الأنصاري رسول الله
اسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري وقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال يا زبير اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر فاستوفى رسول الله للزبير حقه وكان رسول الله قبل ذلك أشار على الزبير برأي فيه السعة له وللأنصاري فلما
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5409
اردو حاشہ: (1) جو پانی قدرتی طریقے سے بہتا ہو، اس کا اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ ایسے پانی کے استعمال پر سب سے پہلا حق اس کا ہے جو اس کی طرف سبقت لے جائے اور اسی کی زمین وغیرہ ابتدا میں ہو۔ ایسے شخص کو اپنی زمین، کھیتی اور باغات وغیرہ مکمل طور پر سیراب کرنے کا حق ہے، تاہم اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ جب اس کی ضرورت پوری ہو جائے تو پھر اس پانی کو آگے والے لوگوں کے لیے چھوڑ دے۔ اس پانی کو روک رکھنے کا حق پہلے شخص کو قطعا نہیں۔ (2) حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو باہم جھگڑنے والے فریقوں میں درمیانی راہ نکال کر صلح کرا دے۔ فریقین اس پر راضی نہ ہوں تو حقیقی فیصلہ کردے اورہر فریق کو اس کا پورا پورا حق دلا دے۔ (3) یہ صحابی انصاری اور بدری تھے اور بدری صحابہ کے بارے میں قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے کہ وہ قطعاً مومن اور جنتی ہیں، لہٰذا انصاری سے الفاظ نفاق کی بنا پر نہیں بلکہ وقتی جذبات کے تحت صادر ہوئے تبھی تو آپ کے حتمی فیصلے پر اس نے سر تسلیم خم کر دیا اور کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہی اس کے ایمان کی دلیل ہے۔ ویسے بھی آپ نے پہلے فیصلہ نہیں فرمایا تھا بلکہ مصالحت کا مشورہ دیا تھا۔ جب مصالحت کار گر نہ ہوئی تو آپ نے حتمی فیصلہ دے دیا۔ (4) باب کا مقصود یہ ہے کہ غصے کی حالت میں بھی غلطی کا امکان نہیں۔ اس بارے میں سابقہ حدیث کا فائدہ بھی ملحوظ رکھا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5409
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2708
2708. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، وہ حضرت زبیر بن عوام ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا ایک انصاری بدری صحابی سے حرہ کے برساتی نالے کے متعلق جھگڑا ہوا جس سے وہ دونوں (اپنی زمینوں کو) پانی پلایاکرتے تھے۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”زبیر! تم زمین سیراب کر کے پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدو۔“ اس سے انصاری غضبناک ہوکر کہنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ اس وجہ سے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے؟یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ کاچہرہ انور متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: ”اے زبیر! تم ا پنی زمین کو سیراب کرو، پھر پانی کو روکے رکھو حتیٰ کہ وہ منڈیر تک چڑھ جائے۔“ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا پورا حق دیا۔ قبل ازیں رسول اللہ ﷺ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں حضرت زبیر ؓ اور انصاری دونوں کی رعایت تھی۔ پھر جب انصاری نے رسول اللہ ﷺ کو غصہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2708]
حدیث حاشیہ: قاعدے اور ضابطے کا جہاں تک تعلق ہے آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی حضرت زبیر ؓ کے حق میں بالکل انصاف پر مبنی تھا۔ مگر انصاری صحابی کو اس میں رو رعایت کا پہلو نظر آیا جو صحیح نہ تھا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور بلا چوں و چرا اطاعت رسول ﷺ کو ایمان کی بنیاد قرار دیاگیا۔ آیت کریمہ سے ان مقلدین جامدین کا بھی رد ہوتا ہے جو صحیح احادیث پر اپنے ائمہ کو ترجیح دیتے اور مختلف حیلوں بہانوں سے فیصلہ نبوی کو ٹال دیتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ جلد اول صفحہ: 365، 366 پر فرماتے ہیں۔ ”پس اگر ہمیں رسول معصوم کی حدیث بہ سند صحیح پہنچے جس کی اطاعت خدا نے ہم پر فرض کی ہے اور مجتہد کا مذہب اس سے مخالف ہو اور اس کے باوجود ہم حدیث صحیح کو چھوڑ کر مجتہد کی تخمین اور ظنی بات کی پیروی کریں تو ہم سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا اور ہم اس وقت کیا عذر پیش کریں گے جب کہ لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوں گے۔ “ دوسری جگہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒنے ایسی تقلید کو آیت ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾(التوبة: 31) کا مصداق قرار دیا ہے۔ (حجة اللہ البالغة)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2708
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2708
2708. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، وہ حضرت زبیر بن عوام ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا ایک انصاری بدری صحابی سے حرہ کے برساتی نالے کے متعلق جھگڑا ہوا جس سے وہ دونوں (اپنی زمینوں کو) پانی پلایاکرتے تھے۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”زبیر! تم زمین سیراب کر کے پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدو۔“ اس سے انصاری غضبناک ہوکر کہنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ اس وجہ سے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے؟یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ کاچہرہ انور متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: ”اے زبیر! تم ا پنی زمین کو سیراب کرو، پھر پانی کو روکے رکھو حتیٰ کہ وہ منڈیر تک چڑھ جائے۔“ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا پورا حق دیا۔ قبل ازیں رسول اللہ ﷺ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں حضرت زبیر ؓ اور انصاری دونوں کی رعایت تھی۔ پھر جب انصاری نے رسول اللہ ﷺ کو غصہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2708]
حدیث حاشیہ: (1) اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو جو پہلے حکم دیا تھا اس میں فریقین کے لیے وسعت اور رعایت تھی، لیکن جب انصاری نے اس رعایت کو غلط رنگ دیا تو قاعدے اور ضابطے کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو پورا پورا حق دیا۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب حاکم فریقین کو آپس میں صلح کا حکم دے لیکن کوئی فریق اس پر دل و جان سے آمادہ نہ ہو تو پھر حسب قاعدہ کاروائی کرنا ہو گی اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا جس میں کسی کے لیے رعایت کا پہلو نہیں ہو گا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2708